احسان کو اگر بطور ہم قافیہ انسان کے دیکھا جائے تو اس کا مفہوم واضح ہونے میں تمام تر مشکلات زائل ہوجاتی ہیں. یعنی انسان وہ ہے جو احسان کرتا ہے. بالکل اسی طرح احسان کو بطور ہم قافیہ حیوان کے دیکھا جائے تو اس کا مفہوم مزید واضح ہو جاتا ہے. یعنی جو احسان نہیں کرتا، وہ حیوان ہے.
لفظ احسان کو توڑ کر تفصیل نچوڑی جائے تو اس لفظ کے ہر حرف نے اپنے اندر ایک وسیع معنی سما رکھا ہے.
ا سے انسانیت
ح سے حاصل
س سے سویرا
ا سے اندھیرا
ن سے نزول
تشریح اس کی یوں کرتا ہوں کہ احسان، ایک ایسا عمل جس کی بدولت معاشرے میں ہر انسان کو دوسرے انسان سے سویرے و اندھیرے انسانیت حاصل ہوتی رہے، یوں کہ جیسے صبح و شام معاشرے پر انسانیت کا نزول ہو رہا ہو. انسانیت سے لبریز، اخلاقی اقدار سے بھرپور ایک معاشرہ جہاں انگلی کا زخم پورے جسم کو تھکا دے اور جہاں دل کا گھاؤ آنکھوں کو رلا دے، احسان اور احسان مندی سے ہی وجود میں آسکتا ہے.
یہی وجہ ہے کہ آفاقی ذریعۂ ہدایت، جو تاقیامت انسانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے، میں خالقِ انسان، انسان کو مخاطب کرکے احسان کی تلقین کرتا ہے اور پھر وہ جو محسن ہوں، ان کو پسندیدگی کی سند بھی تھما دیتا ہے کہ
"ان اللہ یحب المحسنین.”
اب جس کو رب العزت کی پسندیدگی چاہیے تو اسے چاہیے کہ احسان کرے اور جو اس پسندیدگی کا پاس رکھنا چاہے، اسے چاہیے کہ مزید احسان کرے اور امر ہوجائے.
خود رب العالمین نے احسان کیا جو ڈوبتی کشتئ انسانیت کو پار لگانے کے واسطے اپنے محبوب کو ناخدا بنا کر بھیج دیا.
اسی مسیحا کے ذریعے انسان کو نیکی کا حکم دیا گیا. بہت سی نیکیوں میں احسان کو سب سے بڑی نیکی مانتا ہوں. اس لیے کہ یہ وہ نیکی ہے جو فرض نہیں تھی. فرض تو فرض ہوتا ہے، فرض ادا کیا تو کیا احسان کیا؟ لیکن اگر بغیر کہے، بنا پوچھے کسی پر احسان کر دیا تو یہ اصل نیکی ہے جو کیے جانے والے شخص کو ہمیشہ اپنے محسن کو یاد رکھنے پر مجبور کردیتی ہے.
روئے حدیث سے اس بات پر مہر ثبت ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے. چنانچہ توفیق خداوندی سے احسان کرنے والا ہمیشہ ایک درجہ اوپر رہتا ہے اور جس پر احسان کیا جائے، وہ مغلوب ہوتا ہے. یہ امر بھی واقعی ہے کہ مغلوب جو ہوتا ہے، اس کو رہ رہ کر غالب اور کارہائے غالب، جو غالب نے مغلوب کی مدد کیلئے کیے ہوں، یاد آتے ہیں.
چنانچہ وہ جو احسان کرتے ہیں، اپنے احسانات سمیت ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں اور صفحۂ ہستی پر ان کے ان مٹ نقوش رہ جاتے ہیں.
لب لباب یہ کہ انسان کو چاہیے حتیٰ المقدور احسان کرتا جائے. نہ احسان کے بدلے احسان قبول کرے نہ احسان کے انکار پر آگ بگولہ ہو، کیونکہ دونوں صورتوں میں وہ درجۂ احسان سے گر جاتا ہے اور کبھی یاد نہیں کیا جاتا.