ایک بل، ایک لاش اور وزیروں کی مسکراہٹ
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان اسٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ انڈیکس ایک لاکھ اکتیس ہزار پوائنٹس کی حد پار کر چکا ہے اور سرمایہ دار طبقے کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لیکن اس معاشی پیش رفت میں ایک سوال ہے جو دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے اور ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ کیا یہ ترقی عام پاکستانی کے لیے بھی ہے یا یہ صرف چند مخصوص خاندانوں، اشرافیہ اور مالیاتی مافیاز کی جیبیں بھرنے کا ذریعہ ہے؟ جب غریب کا چولہا بجھا ہوا ہو، بچے فاقوں پر ہوں اور گھر کا مالک بجلی، پانی، آٹا اور دوائی کے اخراجات سے تنگ آ کر دیوار سے سر ٹکرا رہا ہو، تو سٹاک ایکسچینج کا یہ جشن سراسر تماشہ معلوم ہوتا ہے۔
ملک کا عام شہری آج مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی ناہمواری کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں نے اس کا ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں عام سواری کو بھی لگژری بنا چکی ہیں۔ ریلویز نے کرایوں میں اضافہ کر دیا، بسوں نے کرائے بڑھا دیے اور گڈز ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کی دھمکیاں دے رکھی ہیں۔ ملک شہزاد اعوان جیسے نمائندے ٹیکسوں اور ٹولز ٹیکس سے تنگ آ کر احتجاج کر رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں ان کی گاڑیاں نذرِ آتش اور لوٹ مار کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ صرف ٹرانسپورٹ کا بحران نہیں، یہ ہر اس شہری کا درد ہے جس کی روزمرہ اشیاء ان گاڑیوں سے جُڑی ہوئی ہیں اور جب ان اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ان کا بوجھ بھی عوامی کمر پر آ گرتا ہے۔
یہ معاشی دباؤ صرف تاجر یا ٹرانسپورٹر نہیں بلکہ ہر عام پاکستانی کی گردن پر ہے۔ گوجرانوالہ میں انور نامی محنت کش کا بجلی کا بل صرف 3800 روپے کی عدم ادائیگی پر کاٹ دیا گیا۔ جب اس نے ہمسائے سے بجلی لی تو گیپکو نے اس پر چوری کا مقدمہ درج کرا کے جیل بھجوا دیا اور 700 یونٹ کابل بنادیا۔ یہی مقدمہ اس وقت قیامت بن گیا جب اس کا بیٹا فراز تیزاب پی کر زندگی سے منہ موڑ گیا۔ ماں کی فریاد "میرا بیٹا بلوں کے دفتر کے چکر لگاتا رہا اور آخر مر گیا” صرف ایک بین نہیں، پورے سسٹم پر ایک تھپڑ ہے۔کچھ عرصہ قبل اسی شہر میں ایک بھائی نے بجلی کے بل کے جھگڑے پر اپنے ہی بھائی کو قتل کر دیا۔ ڈسکہ کی نسرین بی بی نے بیس ہزار روپے کے بل سے تنگ آ کر خود کو جلا لیا۔ یہ خبریں نہیں، ماتم ہیں، جن پر پورا معاشرہ آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بجلی کی قیمت میں سات روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا تھا مگر یہ کمی بنیادی ٹیرف میں نہیں بلکہ عارضی فیول ایڈجسٹمنٹ میں کی گئی، جو اپریل سے جون تک محدود تھی۔ اب وہ ریلیف ختم ہو چکا ہے اور عوام پھر اسی ظلم کے شکنجے میں آ چکی ہے۔ وفاقی وزیر اویس لغاری کا یہ کہنا کہ "ہم نے مستقل ریلیف دیا ہے”، گویا ان ماں باپ کے زخموں پر نمک پاشی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے کھو دیا۔ آج ایک دو کمروں کے گھر کا بجلی بل آٹھ سے دس ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے، جو ایک تنخواہ دار یا مزدور کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
قانون دان اور ماہرنفسیات بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ مہنگائی نہ صرف معاشی تباہی کا پیش خیمہ ہے بلکہ معاشرتی تنزلی، تشدد اور ذہنی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ گھروں میں جھگڑے، طلاقیں، قتل، خودکشیاں…یہ سب سلیب گردی کے بدترین نتائج ہیں۔ اگر یہی تسلسل جاری رہا تو ہم ایک ایسا معاشرہ بن جائیں گے جہاں انسانیت صرف کتابوں میں رہ جائے گی۔
اور اب وہ خونی سوال جو ہر دل کو چیر رہا ہے کہ جب سٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو کیا اس کا کوئی فائدہ عام پاکستانی کو مل رہا ہے؟ جب ایک غریب محنت کش کا بیٹا بجلی کے بل کی وجہ سے خودکشی کر لیتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جب بھائی بھائی کا قاتل بن جاتا ہے اور خواتین خودسوزی پر مجبور ہوتی ہیں تو کیا یہ نظام کی ناکامی نہیں؟ وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری، آپ کے فیصلوں نے عوام کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا ہے۔ آپ اس "سلیب گردی” کے نتیجے میں معصوم پاکستانیوں کی اور کتنی جانیں لیں گے؟
کیا کوئی ادارہ یا لیڈر اس معاشرتی تباہی کو روکنے کے لیے آگے بڑھے گا یا ہم صرف اعدادوشمار کی چمک دمک میں کھوئے رہیں گے جبکہ عام آدمی کی چیخیں دبتی رہیں گی؟ اربابِ اختیار سے سوال ہے کہ آپ کے پاس اس درد کا کوئی مداوا ہے یا بس وعدوں اور عارضی ریلیف کے جھانسوں سے عوام کو مزید ٹھگتے رہیں گے؟ کب تک اویس لغاری کے غلط فیصلوں کی وجہ سے بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور مائیں اپنے لخت جگر کی لاشوں پر بین کرتی رہیں گی؟ اس ظلم کے خلاف کون بند باندھے گا؟ کب تک سلیب گردی کی بھینٹ چڑھ کر جنازے اٹھتے رہیں گے؟ کیا کوئی آج کے دور کا عمر پیدا ہوگا جس نے کہا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کا جوابدہ عمر ہوگا؟
اب ان بھوکے، بے بس اور اویس لغاری کی سلیب گردی کی وجہ سے مرنے والوں کے خون کا ذمہ دار حاکم وقت وزیر اعظم میاں شہباز شریف نہیں تو اور کون ہے؟