ایک داماد کی آپ بیتی — نعمان سلطان

راقم کے ایک دوست نے راقم کی تحریر "چلتے ہو تو سسرائیل چلئے ” پڑھی، اپنے اعمال بد کی وجہ سے روز آخرت حصول جنت کے بارے میں پر امید نہ تھا اس لئے اس نے دنیا میں ہی جنت کے حصول کی کوشش کرنے کے بارے میں ٹھان لی، اور خدا کی رحمت سے ناامیدی گناہ کبیرہ ہے کہ طعنوں کا یہ جواب دیا کہ ہو سکتا ہے میں ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوں جنہیں دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کی رحمت سے مستفید ہونے کا موقع ملے، تو میں دنیاوی جنت کو ٹھکرا کے کفران نعمت کیوں کروں؟

جب حاسدین نے انہیں طعنے دئیے کہ "یہ منہ اور مسور کی دال” ہم بھی یہیں ہیں دیکھتے ہیں کہ آپ کیسے دنیا میں جنت حاصل کرتے ہو، تو عزیزی نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا، مناسب تعلیم، ذہانت، شخصیت، فٹنس اور مضبوط فوجی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے فوج میں کمیشن ملنے کا قوی امکان تھا لیکن عزیزی کو ملک میں جاری شرپسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے قوی امید تھی کہ ٹریننگ مکمل کرتے ساتھ ہی انہیں آپریشن ایریا میں بھیج دیا جائے گا جہاں سے ان کی واپسی تابوت میں ہو گی، اس وجہ سے وہ فوج میں نہیں گئے اور انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا،تحریر میں لکھی گئی بات ان کے پیش نظر تھی کہ جنت کی نعمتوں سے اگر زیادہ لطف اندوز ہوناہے تو سسرائیل میں قیام کم سے کم وقت کے لئے کرنا ہے ۔

یہاں بھی انہوں نے اپنی طرف سے ذہانت کا مظاہرہ کیا اور جنت کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کے لئے عزیزی نے اپنے رہائشی شہر میں ہی شادی کا فیصلہ کیا، تاکہ گھڑے کی مچھلی کی طرح نعمتیں ہر وقت دسترس میں رہیں اور جب دل کرے ان سے لطف اندوز ہو سکے، قصہ مختصر عزیزی نے ملازمت کر لی اور اس کی خواہش کے مطابق اسی شہر میں اس کی شادی بھی ہو گئی اور عزیزی ہمیں شہر کے شہر میں شادی کے فوائد بتا کر للچاتا رہا پھر ہم بھی غم روزگار میں مبتلا ہو کر کافی عرصہ عزیزی سے ملاقات نہ کر سکے ۔

کافی عرصے بعد جب عزیزی سے ملاقات ہوئی تو اس کا بجھا ہو چہرہ دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے، بعد از تشفی عزیزی نے ہمیں بتایا کہ جو عقلمندی میں نے شہر میں شادی کر کے کی تھی وہ اب میرے گلے پڑ گئی ہے، بیگم کا جب دل کرتا ہے وہ اپنے میکے چلی جاتی ہے اور گھر والے ان حالات میں ہم دونوں سے سخت خفا ہیں اس وجہ سے جب میں کام سے تھکا ہارا گھر آتا ہوں تو اگر بیگم اپنے میکے گئی ہو تو وہ مجھے روٹی پانی کا بھی نہیں پوچھتے کہتے ہیں کہ شادی کے بعد تمھارے کام تمھاری بیوی کی ذمہ داری ہے، میں نے شہر کے شہر جنت کے مزے لینے کے لئے اپنے گھر کو ہی جہنم بنا لیا خدارا میری پریشانی کا کچھ مداوا کرو۔

ہم نے سابقہ تعلقات دیکھتے ہوئے عزیزی کی مدد کا فیصلہ کیا اور اسے ایسا مشورہ دیا کہ اس کا گھر بھی خراب نہ ہو اور بیگم کا بار بار میکے جانا بھی کم ہو جائے عزیزی نے ہمارا مشورہ سن کر صدق دل سے اس پر عمل کرنے کا وعدہ کیا اور اپنی بیگم سے کہا کہ آپ کا میکہ میرے لئے مثل جنت ہے جس کی آپ حور ہو اور حور سے دور رہنا کفران نعمت ہے اس وجہ سے جب آپ کا دل کرے آپ اپنے میکے جاؤ، بس مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں بھی اپنی نوکری سے فارغ ہو کر آپ کے پاس وہیں آ جاؤں اور سسرائیل میں عطا کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔

عزیزی کی بیگم نے خوشی خوشی کہا کہ کل میں میکے جاؤں گی آپ بھی نوکری سے چھٹی کر کے وہیں آ جانا، چھٹی کے بعد عزیزی جب اپنے سسرائیل گیا تو وہاں فرمائشی کھانوں سے لطف اندوز ہوا، نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وقتاً فوقتاً اپنی حور کے ساتھ بےتکلف ہوتے ہوئے افراد خانہ کے ہاتھوں پکڑا بھی گیا اور دیگر افراد خانہ کی خلوت کو متاثر بھی کرتا رہا، جب اہل خانہ نے شکایات کا انبار سسرائیل کی وزیر اعظم (ساس صاحبہ) کے سامنے رکھا تو انہوں نے فوراً اس مسئلے کا سدباب کرنے کے لئے مشاورتی اجلاس (بیٹیوں اور بہنوں) کا طلب کیا۔

جس میں متفقہ فیصلہ ہوا کہ عزیزی کے سسرائیل میں قیام کی وجہ سے سسرائیل کا بجٹ انتہائی متاثر ہو رہا ہے اور عزیزی کی خواہش نفسانی سے مجبور ہو کر حرکات کی وجہ سے مملکت خداداد سسرائیل کی مکین دیگر خواتین پر نامناسب اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس وجہ سے عزیزی کی سسرائیل میں قیام کرنے کی وجہ (عزیزی کی بیگم) کے ہمراہ اسے سسرائیل سے بے دخل کیا جائے اور عزیزی کی بیگم کو پابند کیا جائے کہ آئندہ وہ ایک مخصوص عرصے کے بعد میکے آئے تا کہ عزیزی ان کے لئے بلائے جان نہ بنے یوں عزیزی کی” نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی آیا چوکھا”، لیکن اس واقعے کے بعد عزیزی تمام احباب کو مشورہ دیتا رہا کہ شادی ہمیشہ دوسرے شہر میں کرو کیونکہ "دور کے ڈھول سہانے ” ۔

Comments are closed.