دنیا کی اس مختصر سی اور دھوکے والی زندگی کے بعد نا ختم ہونے والی زندگی ہمارا انتظار کر رہی ہے اور ہم سب نے جان بوجھ کر اپنے بچوں کی آخرت بھلا کر دنیا میں انکو مصنوعی کامیابی کے پیچھے لگا رکھا ہے جبکہ اصل کامیابی تو موت کے بعد کی ہے جس کے لیئے ہماری کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں … آپ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھیں یا ہاورڈ سے آپ سے سوال تعلیمی ڈگریوں کا نہیں بلکہ اچھے اور برے اعمال کے حوالے سے ہوگا .. آپ دنیا کی تعلیم ضرور حاصل کریں بلکہ خوب حاصل کریں کوئی ممانعت نہیں مگر یہ سب الله تعالیٰ اور نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر چل کر ہو تو کامیابی کا ضامن ہوسکتی ہے … تب دنیا میں بھی مزے کریں اور آخرت میں بھی کامیاب ہوجائیں … مگر یہاں کچھ لوگ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا حوالہ دیکر دین دار طبقوں کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں حالانکہ وہ خود اپنا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں اور سخت خسارے میں رہتے ہیں …
مجھے الله تعالیٰ نے صرف نو سال کی کم عمری میں عالمی شہرت کے میڈلز پہنائے ، پڑھائی لکھائی اور ذہانت میں کمال درجہ عطا کیا مگر یہ زندگی چونکہ جلد ختم ہوجائے گی اور اگلی منزل پر مجھے روک کا پوچھا جائے گا کہ ہم نے آپکو زندگی دی تھی وہ کن چیزوں میں اور کس جگہ صرف کی تو سوچیئے کہ ہمارے پاس کیا جواب ہوگا یہ وہ وقت ہوگا جب انسان حسرت کریگا کہ ایک بار الله دنیا میں دوبارہ بھیج دیں تو وہ اپنی پوری کی پوری زندگی سجدے میں گزار دیں لیکن افسوس کہ یہ موقع انسان کو دوبارہ نہیں ملے گا. میرے بھائیوں اس بڑی ناکامی کے خوف نے مجھ سے میری دنیا کی مختصر سی زندگی کی شہرت بھلا رکھی ہے اور میں اس کوشش میں ہوں کہ کیسے اپنی قوم کے بچوں کو صراط مستقیم پر لاکر بچاؤں … کسے ان بچوں کی خوب صورت تربیت کروں کہ جس سے نا صرف وہ پاکستان اور امت مسلمہ کے لیئے کارآمد ثابت ہوسکیں بلکہ الله اور نبی پاک صلى الله عليه وسلم بھی خوش ہو جائیں.اس دنیا کی شہرت دولت اور پروٹوکول سب ختم ہونے والا ہے یہ وہ جالا ہے جس میں شیطان انسان کو پھنسا کر ناکام بنانا چاہتا ہے . میری تقریریں اب بھی چل رہی ہیں میری دنیاوی انگریزی تعلیم اب بھی جاری و ساری ہے بس پہلے اور اب میں صرف اتنا فرق آیا ہے کہ اب میں کچھ بھی کام کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھتا ہوں کہ میرے نبی صلى الله عليه وسلم کا طریقہ کیا تھا . میرے الله نے مجھے زندگی گزارنے کے لیئے جو قرآن بھیجا ہے وہ میری زندگی کے حوالے سے کیا کہتا ہے. بس اتنی سی بات سے ہم دین کو سخت جان کر اس سے اس لیئے بھاگ رہے ہیں کہ لوگ کہیں گے کہ بندا مولوی بن گیا ہے . جو تضحیک ہم لوگ آج کل علما کی کر رہے ہیں وہ بھی ہماری ناسمجھی ہی ہے کیونکہ جس معاشرے میں لوگوں کے دلوں میں دین کی اہمیت اور قدر نہیں ہوگی تو وہاں کے علما کے ساتھ پھر یہی رویہ برتا جاتا ہے … میرے بھائیوں یہ دین صرف مولویوں کے لیئے نہیں آیا دین ایک طرز زندگی ہے ایک ترتیب ہے جو ہم سب کے لیئے چودہ سو سال پہلے پیش کیا گیا … آپ کے انگریزی سکول تو ابھی بنے ہیں جبکہ دین کا معاملہ تو صدیوں پرانا ہے …