ایک تیر سے دو شکار بقلم:عمر یوسف

0
31

ایک تیر سے دو شکار

عمر یوسف

خیالات کتنی طاقت رکھتے ہیں ۔۔۔ اچھے ہوں تو زندگی اچھی بنا دیتے ہیں برے ہوں تو زندگی اجیرن کردیتے ہیں ۔۔۔ دماغ کا کام تو بس یہی ہے کہ وہ ہر وقت خیالات میں مگن رہے گا ۔۔۔ اس لیے انسان تو خیالات سے الگ ہو نئی سکتا ۔۔۔ ہاں ایک کام انسان کرسکتا ہے کہ وہ اپنے خیالات پہ قابو پالے ۔۔۔ جب دماغ قابو میں ہوتا ہے تو بندہ بادشاہوں جیسی زندگی گزارتا ہے ۔۔۔ خلیفہ متوکل باللہ کو اداس دیکھ کر وزیر فتح خاقان نے پوچھا ۔۔۔ حضور پریشان کیوں بیٹھے ہیں ۔۔۔ جبکہ آپ تو دنیا کہ خوش نصیب ترین انسان ہیں ۔۔۔ خلیفہ متوکل باللہ نے وزیر کو فورا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے بہتر انسان تو وہ جو عام ہے اور معمولی زندگی بسر کرتا ہے ۔۔۔

سوچ کا زاویہ غلط ہو تو بادشاہ بھی غلاموں جیسی زندگی گزارتا ہے ۔۔۔ خلیفہ کی زندگی سے خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔۔۔

جب دماغ میں خیالات کا طوفان بپا ہو ۔۔۔ اور منفی خیالات انسان کی کمر توڑ دیں تو نفسیات کے ماہر میڈیٹیشن یعنی مراقبہ کرنے کو کہتے ہیں ۔۔۔ مراقبہ میں انسان آنکھیں بند کرتا ہے اور صرف ایک نقطے پر سوچ کو مرکوز کرتے ہوئے لمبے لمبے سانس لیتا ہے ۔۔۔ یوں دماغ کئی طرفہ سوچنے کی بجائے ایک طرفہ سوچنے لگتا ہے اور ساری کی ساری منفیت غائب ہوجاتی ہے ۔۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مراقبہ کے نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔۔۔ اور ڈپریشن کے مریض خوب اچھا محسوس کرتے ہیں ۔۔۔

لیکن میں چاہتاہوں کہ آپ ایک تیر سے دو شکار کریں ۔۔۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ نماز سب سے بڑا مراقبہ ہے ۔۔۔ ایک مسلمان جب نماز پڑھ رہا ہو تو اس کی ساری کی ساری توجہ اس کے رب کی طرف ہوتی ہے ۔۔۔ وہ بس اپنے رب کو سوچتا ہے ۔۔۔ وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ اس کی طرف دیکھا جارہا ہے ۔۔۔ پھر اس کا خشوع و خضوع اور بڑھ جاتا ہے ۔۔۔ جب عذاب قبر یاد آتا ہے تو دنیاوی مصائب ہیچ نظر آنے لگتے ہیں ۔۔۔ حشر کے طویل اور پر مشقت منظر کو یاد کرکے اسے دنیا انتہائی حقیر معلوم ہوتی ہے ۔۔۔ دنیا کی حقیقت جان لینے کے بعد وہ انتہائی مطمئن ہوجاتا ہے ۔۔۔ اللہ سے دعائیں کرتے ہوئے اس کی امید بندھ جاتی ہے کہ اس کے سارے کام ٹھیک ہوجائیں گے ۔۔۔

یوں جب نماز ختم ہوتی ہے تو منفیت کا طوفان تھم چکا ہوتا ہے ، بری سوچوں کے سیلاب کو جیسے روک دیا جاتا یے ۔۔۔ دماغ کے باغ سے خزاں رخصت ہوجاتا ہے اور بہار آجاتی ہے ۔۔۔ خوشبو سے معطر پھول لہلہانے لگتے ہیں اور انسان عمل کے میدان میں کودنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے ۔۔۔

یوں نماز جیسے عبادت نما مراقبے سے انسان نے ثواب بھی کما لیا اور مراقبہ بھی کرلیا ۔۔۔

بلا شبہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں ۔۔۔

Leave a reply