آج کی دنیا -خاموش پیغام تحریر عبدالعزیز صدیقی ایڈوکیٹ

0
26

آج کل ہم جس دنیامیں زندہ ہیں ، اس کےحالات بہت چونکا دینے والے ہیں۔ یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ ہمارے زمانے میں پریوں کی جوکہا نیاں تھیں وہ اب سچی ثابت ہوگئی ہیں ۔ اب انسان خلاء کی سیراتنے آرام سے کر رہے ہیں جیسے گھر کی چہار دیواری مں بیٹھے ہوں اور اب توانسان چاند پر ڈیرے ڈال چکا ہے اوراب تو وہ دوسرے سیاروں پر بھی کمند ڈالنے کی فکر میں ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی سامان خریدنا ہو تو بس گھر بیٹھےایک معمولی کارڈ سے ادائیگی کر کے منگایا جاسکتا ہے، ایک معمولی ساہٹن دباکر ہم اپنے مکان میں روشنی کا سیلاب لا سکتے ہیں، ایک بٹن دہاتے ہی گھر بیٹھے ہم رنگارنگ موسیقی سن سکتے ہیں اورفورا ہی دوسرابٹن دباکر زندہ تماشا یعنی ٹیلی وزن دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات چشم زدن میں آپ کے سامنے آجاتے ہیں، ایک چھوٹاسا آلہ کان اور منہ سے لگانے کے بعد هم ایک ایسے دوست کو دیکھتے ہوئے براہ راست بات چیت کر سکتے ہیں جو ہم سے آدھی دنیا کے فاصلے کے برابر دور بیٹھا ہے، ہم جب چاہیں گوگل کی مدد سےاپنے ذہنی دریچوں کوکھول سکتے ہیں ، ہم سیکنڈوں میں بادلوں اور بلندیوں پر چمکتے ہوئے ستاروں کے بارے میں قیمتی معلومات کا خرانہ حاصل کر سکتے ہیں، ان چٹانوں کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں جو ہمارے پاؤں کے نیچے دفن ہیں، اپنےجسم کی ساخت کو سمجھنااب کوئ مشکل نہیں رہا، اس کے ساتھ ہی ہم تندرست رہنے کے طریقے بھی معلوم کر سکتے ہیں اور یہ وہ معلومات ہیں جو کہ اب سے ہزاروں سال پہلے کےبڑے بڑے علماء کو بھی معلوم نہیں تھیں۔
اب تو ہم قدیم بادشاہوں سے کہیں زیادہ بہتر موسیقی سن سکتے ہیں، اب ہم دنیا سے مختلف ممالک کی بہترین نقاشی اورسنگ تراشی کے نمونے بآسانی گھر بیٹھےدیکھ سکتے ہیں، ہم اگر چاہیں تو معمولی سی کوشش سے بہترین موسیقار، مصور اور مجسمہ ساز بن سکنے ہیں۔ اپنے خیالات و محسوسات کو بہترین پیرایوں میں ظاہرکرنے کے طریقے سیکھ سکتے ہیں۔ اب توآپ یہ کہھہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی کمال کی بات نہیں اور نہ اسے پہلے کی طرح جادو کہاجاسکتاہے۔
ہمارے آبا واجداد کے بچپن میں نہ ریڈیو تھے اور نہ ہوائی جہاز ۔ اسی طرح جب آپ کے والد بچے تھے تو ٹیلیوژن کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آنے والی کل کو آپ کے بچے کیا کچھ دیکھیں گے آج آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن اب اس کا انحصار آپ کی زات پر ہے ہرنئی ایجا دکا فائدہ بخش پہلو بھی ہوتا ہے اور نقصان دہ بھی۔ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر آپ دور دراز علاقوں میں جاکر تفریح کر سکتے ہیں لیکن یہ ہی جہاز مکانوں، کارخانوں اور شہروں پر بم گرا کر انہیں مٹی کے ڈھیر بھی بنا سکتے ہیں ۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے آپ دنیا کی بہترین موسیقی اور تفریحی پروگرام دیکھ اورسن کر خوش ہوسکتے ہیں اور یہی ریڈیو اور ٹی وی دشمن کی فوجوں کوحملہ کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے ۔ ایٹم بم نیار کر نے والی مشینیں مہلک بم بھی تبار کرتی ہیں اور آپ کو تکلیف دہ امراض سے نجات بھی دلاسکتی ہیں۔ درسگاہوں میں ہم حکمت و دانائی کی باتیں سیکھتے ہیں لیکن کہیں کہیں ان درسگاہوں میں طالب علموں کو دوسرے انسانوں سے نفرت کرنے کی تعلیم بھی دی جاتی ہے یہ مقولہ بالکل درست ہے کہ "علم کے صحیح استعمال سے انسان ترقی کی بلندیوں پر چڑھتا ہے اور اس کے غلط استعمال سے تنزلی کی پستیوں میں جاگرتا ہے” ۔ہمیں دنیا کے تمام انسانوں سے وہی سلوک کرنا چاہیے جو ہم ان سے اپنے ساتھ چاہتے ہیں ۔ اگرہم نے اس سنہری اصول پرعمل نہ کیا تو ہمارے تمام منصوبے، زندگی کی تمام مسرتیں اور دنیا کی تمام نعمتیں خاک میں مل جائیں گی اورانسان اپنی مسلسل اور انتھک جدوجہد سے ترقی کی جس معراج پر پہنچا ہے ، وہ ماضی کا ایک بھیا نک خواب بن کر رہ جائے گی ۔

@Azizsiddiqui100

Leave a reply