ایک برگزیدہ خاتون کی داستان تحریر:محمد سدیس خان

0
114

حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ بلندی کے اس مقام تک کیسے پہنچے ، آپ کے والد کا آپ کے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا، آپ کی والدہ نے لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا اور اپنے یتیم بچے کا پیٹ پالنا شروع کیا۔ جب یہ بڑے ہونے لگے تو ماں ڈرگئ کہ اب میرا بچہ بڑا ہورہا ہے، گلیوں میں کھیل رہا ہے کہیں یہ غلط لڑکوں کے ساتھ بگڑ نہ جائے۔
لوگوں سے مشورہ کیا، انہوں نے بتایا کہ ایک بہت بڑا مدرسہ ہے وہاں ایک بڑے شیخ ہیں وہاں جو بچے پڑھتے ہیں، وہ اللّٰہ کے ولی بن جاتے ہیں، ہمارا مشورہ یہ ہے کہ تم اپنے بچے کو وہاں داخل کرادو، بیوہ ماں اپنے یتیم بچے کو لیکر اس مدرسہ میں پہنچی ، وہاں کے شیخ سے ملاقات کی ، تعارف کرایا کہ حضرت میں ایک غریب بیوہ عورت ہوں، محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتی ہوں۔
اس یتیم بچے کو ساتھ لائی ہوں، یہ گلیوں میں کھیلنے لگا، مجھے ڈر ہے کہ یہ کہیں بگڑ نہ جائے، میری تمنا یہ ہے اور میرے مرحوم شوہر کی بھی یہی تمنا تھی کہ میرا بچہ عالم ربانی بنے، دین کا خادم بنے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں پھیلائے، آپ اس بچے کو اپنے پاس رکھ لیجئے اور اس کو ایسا عالم بنا دیجیئے کہ یہ نائب رسول بن جائے اور اللّٰہ کو پسند آجاے۔
وہ بزرگ بہت متاثر ہوئے اور فرمایا کہ تم اس بچے کو چھوڑ جاؤ، میں جو کچھ کرسکا وہ کروں گا۔ مگر یہی نہیں جاتے جاتے اس اللّٰہ کی بندی نے ایک درخواست اور کی کہ حضرت! یہ بچہ پہلی مرتبہ گھر سے نکل رہا ہے، اس کو میری یاد بھی بہت آئے گی ، مجھے یاد کرکے روئے گا ، گھر آنے کی اجازت مانگے گا مگر مگر یہ گھر آئے گا تو اس کا دھیان بٹ جائے گا اور یہ وہ نہیں بن پائے گا جو میں اسے بنانا چاہتی ہوں، اس لیے اس کو میرے پاس تب ہی بھیجئے گا جب یہ عالم بن جائے۔
وہ بزرگ حیران رہ گئے کہ اس بیوہ عورت کی کیا ہمت اور کیا تمنائیں ہیں، بزرگ فرمانے لگے جاؤ دعاؤں سے میری مدد کرنا، مجھ سے جو کچھ ہوسکے گا وہ میں کروں گا۔
وہ بیوہ ماں بچے کو چھوڑ کر چلی گئیں، بچے کی تعلیم وترتیب کا سلسلہ شروع ہوگیا ، بچے نے کچھ کچھ مہینوں تک صبر سے کام لیا۔
بالآخر بچے نے آکر استاد سے کہا کہ مجھے اپنی امی کی بہت یاد آرہی ہے، مجھے ایک دن کی چھٹی دے دیجئے ، میں گھر چلا جاؤں۔
اب استاد بہت پریشان کہ چھٹی دیتے ہیں تو اس کی والدہ سے کیا ہوا وعدہ ٹوٹتا ہے اور اگر چھٹی نہیں دیتے تو اس معصوم بچے کا دل ٹوٹتا ہے، اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ اللّٰہ اس مسئلہ کا حل فرما دیں۔
اللّٰہ نے مدد فرمائی، دل میں ایک ترکیب آگئ اور فرمایا کہ میں تمہیں سبق دیتا ہوں، جب تم اسے یاد کرکے شام تک سنادوگے تو میں تمہیں چھٹی دیدوں گا۔ بچہ خوش ہوگیا، استاد نے سبق دیا اور جان بوجھ کر اتنا دیا کہ کہ وہ شام تک یاد ہی نہ ہوسکے۔
جب بچے نے سبق کو دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ سبق تو شام تک یاد نہیں ہوسکے گا۔
اب بچہ حیران کہ میں کیا کروں، دوبارہ استاد کے پاس جاکر سبق کم کرنے کی درخواست کروں تو یہ استاد کی بے ادبی ہو جائے گی۔ اب ماں کو ملنے کو بھی بہت جی چاہ رہا ہے، استاد صاحب تو یہ سمجھتے ہیں کہ میں رات کو تکیہ پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں حالانکہ میں کافی دیر تک منہ چھپائے روتا رہتا ہوں۔
ایک ترکیب ذہن میں آئی ، اس نے کتاب کو ادب کے ساتھ رحل پر رکھا اور اللّٰہ سے دعا کرنی شروع کی کہ یا اللّٰہ! میں نے یہی سنا ہے کہ آپ ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ کی قدرت سب سے زیادہ ہے اے اللّٰہ ! آج مجھ یتیم بچے کی دعا قبول کرکے اپنی قدرت کو استعمال کردیجیۓ۔
آج شام تک یہ سبق یاد کروا دیجئے ، اے اللّٰہ ! آپ جانتے ہیں کہ میں اپنی امی کی یاد میں کتنا تڑپ رہا ہوں، اے اللّٰہ! میرے ٹوٹے دل کو سکون دیجئیے۔
میرے ابو زندہ ہوتے تو وہ آجاتے، میں ان کو دیکھ کر تسلی حاصل کرلیتا، خوب یقین کے ساتھ دعا کی اور پھر سبق یاد کرنے بیٹھا، شام تک اسے سبق یاد ہوگیا۔
استاد کو یقین تھا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اتنا سبق بچہ ایک دن میں یاد کرلے، بچے نے سبق سنانا شروع کیا اور پورا سبق سنادیا، استاد سمجھ گئے کہ اس بچے کا معاملہ کچھ اور ہے، اب استاد نے گھر جانے کی اجازت دی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا، بچہ خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
ہنستا کھیلتا جارہا ہے کہ میں یوں امی سے ملوں گا، آواز دوں گا، پھر چھپ جاؤ گا ، پھر امی سے لپٹ جاؤں گا، پھر امی مجھے کھانا کھلائیں گی، مجھے امی اپنے پاس سلائیں گی کہ کب سے امی کی خوشبو نہیں سونگھی، انہی خیالوں میں وہ معصوم بچہ گھر کی طرف رواں دواں ہے۔
گھر پہنچا تو گھر کا دروازہ بند تھا ، آواز دی لیکن جواب نہیں ملا، پھر آواز دی تو اندر سے آواز آئی کہ کون ہے؟
بچے نے باہر سے جواب دیا امی میں آپ کا بچہ بایزید ہوں، اندر سے جواب آیا کون بایزید، میرا بچہ بایزید تو گھر تب آئے گا جب وہ اللّٰہ کا ولی بن جائے گا، بس وہ بچہ وہیں کھڑے کھڑے روتا رہا۔
وہ سمجھ گیا کے میری امی نہیں چاہتیں کہ میں ابھی ان سے ملوں۔ یوں روتے روتے وہ واپس چلا اور استاد کو سلام کیا، استاد نے پوچھا تم واپس کیسے آگئے خیریت تو ہے؟
اب بچہ نے جواب دینے کے لیے جو اپنا چہرہ اوپر اٹھایا ، استاد نے دیکھا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ استاد نے بچہ کو گود میں لیا ، اپنے عمامہ کے پلو سے اس کے آنسو پونچھے ، گھر کا واقعہ سنایا۔
استاد نے فرمایا یہ بات بتاؤ کہ تم اپنی امی سے ناراض ہوکر تو نہیں آئے؟
بچے نے کہا میرا دل ٹوٹا بہت ہے ، میری آنکھیں بہت روئی ہیں لیکن اب میں کہتا ہوں کہ میں ہزار خوشامد کروں مجھے چھٹی نہ دیجئے گا اور میری درخواست ہے کہ مجھے ویسا بنا دیجیئے جیسا میری امی چاہتی ہیں اور یہ درخواست بھی ہے کہ دعا فرمادیجئے میری امی بیمار رہنے لگی ہیں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں، مجھے ڈر ہے کے کہیں ان کی زندگی کا چراغ گل نہ ہو جائے۔
ان کی زندگی میں وہ برکت ہوکہ وہ مجھے وہ بنا ہوا دیکھ لیں جس کی وہ چاہت رکھتی ہیں اور اتنی قربانیاں دے رہی ہیں ، استاد نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں روزانہ ان کی صحت کے لیے دعا کرتا رہوں گا ۔
پھر بچے کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوگیا، دل کے کانوں سے سنو کہ اگلے ١٦ سال تک یہ بچہ اپنی ماں کے پاس نہیں گیا، اس عرصہ میں بچہ نے چھٹی بھی نہیں مانگی ، پھر کیا ہوا۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کی عمر جب تقریباً ٢٢ سال کی ہوگئی تو ایک مرتبہ خواب میں استاد کو بوقت تہجد حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نوجوان بایزید تمہارے پاس زیر تربیت ہے اس کو ولایت کبریٰ کا جھنڈا دے دیا گیا، اللّٰہ کے ہاں فیصلہ ہوگیا کہ اس کے ذریعے دنیا میں دین کا کام ہوگا، جاؤ اسکو خوشخبری سنادو اور روانہ کردو۔
استاد صاحب اٹھے ، تازہ وضو کیا، شاگرد کے پاس پہنچے تو دیکھا وہ نماز پڑھ رہا ہے، پیچھے بیٹھ گئے، جب بایزید نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ادھر آؤ، سینے سے لگایا اور فرمایا تمہاری ماں کی قربانی رنگ لائی ہے ، تمہارے باپ کی تمنا پوری ہوئی اور تمہارا مجاہدہ اللّٰہ کے ہاں قبول ہوگیا۔
جاؤ اللّٰہ کے دین کی خدمت کرو، اپنا عمامہ اتار کر شاگرد کے سر پر باندھا، یوں استاد نے دعاؤں کے ساتھ روانہ کردیا۔
وہی راستہ وہی گھر تھا، انہی گلیوں میں پھرتے ہوئے وہ گھر پہنچے، دیکھا کے دروازہ بند تھا ، آواز دی تو ماں دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کو سینے سے لگایا ، وہ نوجوان مسنون لباس سے آراستہ تھا، ماں نے بلائیاں لیں۔
بچہ ماں کے قدموں میں گرنے لگا تو ماں نے جلدی سے اٹھالیا اور اپنے کلیجے سے لگا لیا اور بستر پر بٹھایا کہ تھوڑی دیر میں تمہیں گرم گرم کھانا کھلاؤں گی۔
پہلے اللّٰہ کا شکر تو ادا کرلوں، پرانا بوریا بچھایا اور ماں نے دو رکعت کی نیت باندھی۔ پھر دعا کی کہ اے اللّٰہ! مجھ بیوہ کا شکر قبول کرلیجئے، آپ نے میری دعا قبول کرلی، میرے مرحوم شوہر کی تمنا پوری کردی۔
سلام ہو بایزید بسطامی پر اور سلام ہو ان کی جلیل القدر ماں پر، وہ عظیم بیوہ عورت کی عظمت و ہمت کو دیکھئے۔
جب عورت کی تمنائیں درست ہوتی ہیں تو امت کو بایزید بسطامی ملا کرتے ہیں۔
Twitter : @msudais0

Leave a reply