اختر مینگل نے اپنے دو سینیٹرز سے استعفیٰ مانگ لیا
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے دونوں سینیٹرز، نسیمہ احسان اور قاسم رونجھو، کو 26ویں آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سینیٹ سے فوری استعفیٰ دینے کی ہدایت کی ہے۔ یہ فیصلہ اتوار کو سینیٹ میں 26ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد سامنے آیا، جب نسیمہ احسان اور قاسم رونجھو نے پارٹی کی پالیسی اور اختر مینگل کی ہدایت کے برخلاف یہ ووٹ دیا۔ اس واقعے نے بی این پی کے اندرونی معاملات میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔سینیٹر نسیمہ احسان نے بعد میں بیان دیا کہ ان پر آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دباؤ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر نے انہیں اس ووٹ کے لیے مجبور کیا۔ دوسری طرف، اختر مینگل نے اپنی بات میں کہا کہ سینیٹر قاسم رونجھو اسلام آباد میں ڈائیلاسز کے لیے گئے تھے، جہاں سے انہیں اور ان کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا۔ تاہم، قاسم رونجھو نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادانہ طور پر وہاں موجود تھے۔
26ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد سردار اختر مینگل نے دونوں سینیٹرز کو سختی سے تنبیہ کی کہ اگر وہ کل تک سینیٹ سے استعفیٰ نہیں دیتے، تو انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ یہ ہدایت بی این پی کے اندر تنظیمی ڈسپلن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پارٹی اپنے اصولوں کے خلاف جانے والے ارکان کے ساتھ کس طرح کی سختی سے پیش آتی ہے۔سینیٹ میں اس واقعے نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیاسی مستقبل اور اتحادوں پر سوالات اٹھائے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اختر مینگل کے اس فیصلے سے یہ واضح ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسیوں اور اصولوں کے خلاف جانے والے ارکان کے لیے کسی قسم کی رعایت نہیں برتیں گے۔ سینیٹرز کی یہ صورتحال بی این پی کے اندر پارٹی کی وفاداری اور قیادت کی سمت میں ایک اہم موڑ ہو سکتی ہے، اور اس کے ممکنہ اثرات آئندہ سیاسی حالات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔