سانحہ علی سدپارہ :چیزیں کہاں خراب تھیں:جان سنوری نے آخری کال میں بیوی کو کیا کہا:مبشرلقمان نے منظرنامہ پیش کردیا

0
49

سانحہ علی سدپارہ :چیزیں کہاں خراب تھیں:جان سنوری نے آخری کال میں بیوی کو کیا کہا:مبشرلقمان نے منظرنامہ پیش کردیا,،اطلاعات کے مطابق سنیئرصحافی مبشرلقمان نے سانحہ علی سد پارہ پربڑی مفید اور دلوں کو احساس دلانے والی گفتگو کرکے سب کو ہلا کررکھ دیا ہے ،

 

وہ کہتے ہیں  کہ حکومت نے جان سنوری علی سدپارا اور جے پی موہر کوDead قرار دے دیا ہے لیکن لوگ یہ بات ماننے کے لیئے تیار نہیں ہیں کہ علی سدپارہ اب ہم میں نہیں اور وہ اب بھی کسی معجزے کے بارے میں سوچ رہے ہیں آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو انتہائی اہم معلومات فراہم کریں گے جو آپ واقعی جاننا چاہتے ہیں۔ پانچ دسمبر سے لے کر جان سنوری کے لاپتہ ہونے سے پہلےاپنی بیوی کو آخری سیٹلائٹ فون کال تک وہ کیوں Upset تھے، ان کے ساتھ کیمپ تھری پر کیا Tragedyہوئی تھی،

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ وہ کن حالات سے بچنا چاہ رہے تھے لیکن وہ درپیش آئے، کب کیا کیسے ہوا ہم پوری کوشش کریں گے کہ آپ کو یہ معلومات اس ویڈٰیو میں فراہم کریں۔ علی سدپارا نے ساجد کو واپس بھیجنے سے پہلے کن جذبات کا اظہار کیا کیا نہیں پہلے کسی ناگہانی کا بتا چل چکا تھا۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ علی سدپارا اور اس کی ٹیم کی K2پر یا پھر یہ کہہ لیں اس Tragedyکی ٹائم لائن ہے۔ جو انتہائی باوثوق ذرائع سے حاصل کی گئی ہےراو احمد جو علی سدپارا کے Public relation officer تھے اوراس Virtual base camp میں شامل تھے جو علی سدپارا کےریسکیوں آپریشن کی نگرانی کر رہےتھا۔ان کی بیویMoirah Ahmad سے حاصل کی گئی ہیں۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ    اس سے پہلے ایک چھوٹی سی بات کرنا چاہوں گا کہ محمد علی سدپارا اپنی زندگی میں جو حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انہیں اپنی موت کے بعد کیوں حاصل ہوا۔ ؟ہم کب تک اپنے ہیروز کے مرنے کا انتظار کرتے رہیں گے۔کیوں ہم انہیں ان کا مقام ان کی زندگی میں نہیں دیتے۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ علی سدپارا اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں کوہ پیماوں کی کوئی قدر نہیں، کوئی جانتا ہی نہیں کہ علی سدپارا کون ہے، وہ پہلے پاکستانی تھے جو آٹھ ہزار میٹر کی کل چودہ چوٹیوں میں سے آٹھ سر کر چکے تھے۔ ناگا پربت کو سردیوں میں پہلی دفعہ سر کرنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہیروز کو اس وقت عزت دینی چاہیے جب وہ زندہ ہوں، ان کے خواب پورے کرنے کے لیئے انہیں مدد دیں انہیں سپانسر شپ دیں، تاکہ وہ دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔ ہمیں مقامی ایڈوینچررز، رائٹرز، شاعر، سماجی کارکنان، اور فنکاروں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو علی سدپارہ کی طرح مشکل وقت میں بھی اپنے خوابوں کی تعبیر کو ترجیح د ے پاتے ہیں اور اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو تے ہیں۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ علی سدپارا کی وجہ سے دنیا کے کئی بڑے کوہ پیما بڑے بڑے پہاڑوں پر چڑھنے میں کامیاب ہوئے، علی سدپارا انہیں انتہائی مشکل راستوں پر رسیاں باندھ کر دیتے جس کی مدد سے وہ اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوتے۔ علی سدرپارا نے اپنی دنیا خود پیدا کی تھی۔محمد علی سدپارہ کے بیٹے مظاہر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابو حوصلے کا پہاڑ تھے۔ کوہ پیمائی کی ہر مہم پر جانے سے پہلے امی اور ہم لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل کر جاتے اور تسلی دیتے کہ سب ٹھیک ہو گا۔ وہ کہتے کہ بس تم لوگوں نے پریشان نہیں ہونا بلکہ ہر صورتحال کا سامنا کرنا ہے۔ کے ٹو کی مہم پر جانے سے پہلے بھی انھوں نے ہم سے یہی کہا تھا۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ علی سدپارا بچپن میں کھیتی باڑی اور مویشی سنبھالتے پھر پورٹر کا کام شروع کر دیا انہیں پچیس کلو سامان اٹھانے کا روزانہ تین ڈالر ملتے تھے۔ اور وہاں سے انہوں نے پروفیشنل کوہ پیمائی کا سفر شروع کیا۔علی سدپارا کی ٹیم جان سنوری پانچ دسمبر کو کے ٹو بیس کیمپ پر پہنچے جہاں سے انہوں نے لائن فکس کرنا شروع کی، ان کے وہاں پہنچنے کے تین ہفتے بعدNirmal jeeاپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے۔ جنہوں نے کیمپ ٹو پر لائن فکس کی۔۔اسWinter k2 summitمیں تیس کے قریب لوگ بیس کیمپ پر پہنچ چکے تھے۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ میں آپ کو آگے چل کر بتاوں گا کہ چار فروری کی شام جان سنوری نے اپنی بیوی سے کیا آخری بات کی۔ اور ان کے ساتھ کیا Tragedy ہوئی وہاں پر کئی لوگوں کو صحت کے مسائل پیدا ہو چکے تھے سولہ جنوری کو کے ٹو پرWeather window بہت اچھی تھی یہی وجہ ہے کہ نیپالی Sharpa communityکے کوہ پیماوں نے پہلی دفعہK2 winter summit کیا جب وہ واپس آئے تو ان کے ساتھیوں کو شدید Frost bite ہو چکا تھا۔اسی دوران اٹلی کے کوہ پیماSergi Mingoteرسی تبدیل کرتے ہوئے اپنے جان کی بازی ہار گئے۔ جان سنوری کو بائیس جنوری کو ایک weather reportملی کہ23 to 25 janاچھی Weather windowمل سکتی ہے John snoriاور علی سدپارا نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ چنانچہ وہ تئیس جنوری کی رات گیارہ بجے وہاں سے نکلے اور سات ہزار پانچ سو میٹر کی بلندی پر اچھے موسم کا انتظار کرتے رہے لیکن وہFake weather window تھی اور موسم اور ہوائیں بہت خوفناک تھی۔ اس لیئے انہیں پچیس جنوری کو واپس آنا پڑا۔اس کے بعد انہیں پتا چلا کہ دوسری Weather window دو سے چھ فروری کے درمیان ہے اور یہ summitکے لیئے Perfact window ہے۔ اس سارے عرصے کے دوران وہ Acclimatize ہونے کے ساتھ ساتھ بیس کے قریبAttempt کر چکے تھے۔ وہ Over crowd ماحول میں اوپر نہیں جانا چاہتے تھے۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ دو فروری کو علی سدپارا کی سالگرہ تھی۔ا س لیئے تین فروری کو انہوں نے صبح چار بجے Over crowd سے بچنے کے لیئے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ چار فروری کی دوپہر وہ بیس کیمپ تھری پر پہنچ گئے۔ لیکن بدقسمتی سے جب وہ اوپر بیس کیمپ تھری پر پہنچے تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہاں بیس سے پچیس کے قریب Climber پہلے ہی موجود تھے۔ وہ تمام کوہ پیما جنہوں نے کے ٹو سر کرنے کی کوشش کی اور کامیاب نہیں ہوئے وہ وہاں پر واپس آنے کے لیئے موجود تھے۔ اور واپس آرہے تھے۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ چار فروری کی شام John snori نے اپنی بیوی کو سیٹلائٹ فون پر کال کی اور اسے بتایا کہ وہ اچھا محسوس نہیں کر رہےتھے لیکن اب وہ ٹھیک ہیں وہ زیادہ آرام نہیں کر سکے کیونکہ وہاں بہت رش ہے ان کے پاس جو ٹینٹ تھا اس میں تین مزید لوگوں نے آنا تھا اس لیے اس میں آرام کرنا ممکن نہیں۔ لیکن انہوں نے فون بند کرنے سے پہلے اپنی بیوی کو کہا کہ اب وہ ٹھیک اور پر جوش ہیں اور Summit pushکے لیئے تیار ہیں۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ چار فروری کی رات بارہ بجے یعنی بارہ بج کر ایک منٹ پر پانچ فروری ہو چکا تھا انہوں نے اگے نکلنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے پانچ فروری کی دوپہر کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنا تھا اور وہاں سے فون کرنا تھا۔ Jp moher کی ساتھی اوپر جانے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیئے اس نے اپنی Team mate کے بغیرعلی سدپارا اورJohn snori کے ساتھ نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے Climbersنے آگے جانے کا فیصلہ اس لیئے نہیں کیا کیونکہ وہاں سردی بہت زیادہ تھی، آرام کرنے کے لیئے ٹینٹ نہیں تھے اورShortage of oxygen supply تھی۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی گزشتہ ویڈیو میں چار فروری کی رات بیس کیمپ تھری پر کیا ہوا اس کی ساری تفصیل بتائی تھی اور اس میں ہم نے بتایا تھا کہ علی سدپارا پر فلم بنانے والے Elia saikailyنے ریڈیوٹرانسمیشن پر آواز سنی کہ This man is going to kill himselfیقینا J p moherکی ساتھی کی تھی جو اوپر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جے پی موہر کے ٹو سر کرنے کے لیئے پر عزم تھا اور اپنی ٹیم کے بغیر نکل گیا۔Elia saikailyبھی آکسیجن سلنڈر کی کمی کی وجہ سے واپس آگےتھے اور علی سدپارا اور جان سنوری کو آگے اکیلے جانا پڑا۔ رات بارہ بجے نکلنے کے بعد صبح دس بجے وہ بوٹل نیک پر تھے۔

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ راو احمد کی بیوی Moirah ahmed کے مطابق علی سد پارا اور جان سنوری آکسیجن استعمال کر رہے تھے جبکہ ساجد سدپارا اور جے پی موہر آکسیجن استعمال نہیں کر رہے تھے۔ ان کے پاس Plant نہیں تھا۔ جب ساجد کی طبعیت خراب ہوئی تو اس نے اکسیجن استعمال کی لیکن اس کا ریگولیٹر خراب نکلا۔ اور اسے واپس آنا پڑا۔ساجد سدپارانے اپنے ماموں سے علی سدپارا کے ساتھ آخری لمحات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اکسیجن ریگولیٹر کی وجہ سے نیچے آ رہا تھا تو ابو نے اسے انتہائی جذباتی انداز میں زور سے گلے لگایا۔ پھر ہدایت کی کہ احتیاط سے جانا۔ خیال رکھنا، ہم بھی جلد ہی واپس آ جائیں ہیں۔

 

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ جب ساجد نیچے اتر رہا تھاتو علی سدپارا کافی دیر تک اُسے نیچے اترتے ہوئے دیکھتے رہے شاید علی سدپاراکی چھٹی حس نے انھیں کسی ناگہانی آفت سے وقت سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ جب ساجد واپس مڑا تو سورج نکلا ہوا تھا، علی سدپارا اور دیگر ساتھیوں کی Pace ٹھیک تھی، اور سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ دوپہر تین سے چار بجے ساجد بیس کیمپ تھری پر پہنچ گیا۔ لیکن بیس کیمپ مسلسل علی سدپارا جے پی موہر اور جان سنوری سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔سب یہ سوچ رہے تھے کہ شائد رات تک وہ بیس کیمپ پہنچ جائیں اور ان کی بیٹری سردی کی وجہ سے Drainنہ کر گئی ہو۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ ان کے پاس ٹریکنگ ڈیوائس کے علاوہ دو سیٹلائٹ فون بھی تھے جن سے رابطہ نہ کیا گیا۔ لیکن شام سات بجے طوفان شروع ہو گیا۔ اور موسم شدید خراب ہو گیا۔ اوپر سے رات دس بجے پاکستانی میڈیا نے خبر چلا دی کے علی سدپارا نے سردیوں میں کے ٹو سر کر لیا ہے۔رات کو ساجد کو کہا گیا کہ وہ تھوڑا باہر جا کر آثار دیکھے اگر کوئی لائٹ یا کوئی اور چیز دور سے نظر آئے لیکن چند سو میٹر کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اور بیس کیمپ سے چیزوں کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ دوسری طرف واپس آتے ہوئےDr atanasگر کر جان بحق ہو چکے تھے کچھ ان کی میت کو سنبھال رہے تھے تو کچھ کو Frost bite ہو چکا تھا اور کوئی بھی اوپر جانے کے لیئے تیار نہیں تھا۔ اور ایک عجیب ماحول بنا ہوا تھا۔چھ فروری کی صبح آتھ بجے رپورٹ کیا گیا اور دوپہر کو ریسکیو کے لیئے ہیلی کاپٹر اورHigh altitude porters آئے۔ ہیلی کاپٹر پہلے دن سات ہزار پانچ سو میٹر تک گئے لیکن ٹاپ کی Visibilityنہیں تھی،

 

 

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اگلے دن سات ہزار آٹھ سو میٹر تک تلاش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اس کے بعد C130F16 Ice land space agency کی سیٹلائٹ سمت ہر آپشن کو استعمال کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ حکام نے بغیر کسی Visual evidence کے اوپر جانے سے روک دیا کیونکہ اس سے مزید جانوں کے جانے کا خطرہ تھا۔ اس کے بعد سترہ فروری تک Experts یہ فیصلہ کر چکے تھے

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ جس وقت تک انہیں واپس پہنچنا تھا وہ نہیں پہنچے اور اب اس بات کے کوئی چانس نہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ اور ان کی موت کا سرکاری اعلان کر دیا گیا۔

 

مبشرلقمان کہتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ علی سدپارا پاکستان میں کوہ پیمائی کو جاتے جاتے ایک نئی زندگی دے گیا ہے۔

Leave a reply