اللہ اکبر سے گونج اٹھے صحرا ، تحریر :عشاء نعیم

اللہ اکبر سے گونج اٹھے صحرا
کیسے میں عمر فاروق کو خراج تحسین پیش کروں
قلم سوچتا ہے کون کون سے اوصاف لکھوں
غریبوں کی غمگساری لکھوں یا انصاف لکھوں
منتظم اعلی لکھوں یا فتوحات لکھوں
نبی کی اس کو دعا لکھوں یا
جس کی تائید میں تھا قرآن اترتا لکھوں
چھپ کر جو پڑھی جاتی تھیں نمازیں رب کی
عمر آیا تو اللہ اکبر سے گونج اٹھے صحرا لکھوں
پھرتا تھا جو پیوند لگے کپڑوں میں
تھا کفر پھر بھی جس سے کانپتا لکھوں
خود تو سو جاتا تھا پتھر پہ سر رکھ کر
فرات کے کنارے کتے کے مرنے سے ڈرتا لکھوں
مسافر کی جھونپڑی میں مدد کووہ پہنچا
ہر فرد کی ضرورت پہ دھیان رکھتا لکھوں
غریب کھڑا ہو کر تھا جس سے پوچھ تاچھ کرتا
شیطان دیکھ کر جسے تھا راستہ بدلتا لکھوں
میں لکھوں کہ وہ ہے مثال ہر کام میں آج بھی
یا نہ آیا پھر کبھی اس جیسا لکھوں
حکمران تھا وہ لاکھوں میل مربع کا
پتھر پہ سر رکھ کر تھا سو جاتا لکھوں
سواری پہ بٹھا کر غلام پیدل چلنے والا
یا ارض مقدس کا فاتح لکھوں
خط لکھے دریا کو تو دریا اتر جائے
نہیں اس عرش کی آنکھ نے دیکھا ایسا لکھوں
کہوں عمر فاروق تو لب مسکرا دیں
کرو ناز اپنی تاریخ پہ میں بے پناہ لکھوں
عشاء نعیم