امہات المومینین مومنوں کی مائیں ہیں ، فتح مکہ سے دنیا پراسلام کے غلبے کا آغاز ہوا، علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی اہم گفتگو

0
31

لاہور:امہات المومینین مومنوں کی مائیں ہیں ، فتح مکہ سے دنیا پراسلام کے غلبے کا آغاز ہوا، علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی اہم گفتگو،اطلاعات کے مطابق آج علامہ عبدالشکورحقانی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے بائسویں پارے کے اہم واقعات کے ساتھ فتح مکہ کے واقعہ پر بہترین علمی گفتگو کی ہے ،

 

 

 

ذرائع کےمطابق علامہ حقانی اورعلامہ موسوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بائیسویں پارے کا آغاز سورہ احزاب کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ اس کے آغاز میں اللہ نے امہات المومنین سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی امہات المومنین میں سے اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گی اور نیک اعمال کرے گی، اللہ اس کو دو گنا اجر عطا فرمائے گا اور اس کے لیے پاک رزق تیار کیا گیا ہے۔

 

 

 

امہات المومنین کو اس امر کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو نرم آواز سے بات نہ کیا کریں تاکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ ان کی آواز سن کر طمع نہ رکھے اور معروف طریقے سے بات کریں۔ نیز امہات المومنین اپنے گھروں میں مقیم رہیں اور جاہلیت کی بے پردگی اور بناؤ سنگھار نہ کریں، اور نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ نبی کے گھر والوں سے ناپاکی کو دور کر دیا جائے اور ان کو پاک صاف کر دیا جائے۔

 

 

 

 

 

 

.

اس کے بعد اللہ نے حضرت محمد علیہ السلام کے منہ بولے بیٹے زید کی بیوی کو طلاق کے بعد ام المومنین کا درجہ دے کر اس اصول کو واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور اسلام لے پالک کے نام پر معاشرے میں پہچان کی گمشدگی (Theft of Lineage Identity) کی سختی سے نفی کرتا ہے۔ اس کے بعد حضرت محمد علیہ السلام کے خاتم النبیین ہونے کا تفصیلی اور بے غبار بیان ہے اور آپ کو ہدایت کے چمکتے سورج سے تشبیہہ دی گئی ہے

 

 

 

اللہ تعالی نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کریں اور صبح شام اللہ کی حمد میں مشغول رہا کریں۔ نیز تین معاشرتی آداب کو ذکر کیا: کسی کے گھر بغیر اجازت داخل نہ ہوں، ضیافت سے فارغ ہوکر جلد رخصت ہوں تاکہ مہمانوں کے بیٹھنے سے اہل خانہ کو تکلیف نہ ہو، اور غیر محرم خواتین سے اگر کچھ مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگیں.

 

 

 

ایمان والوں کو خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ملائکہ نبی پاک پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اپنے نبی پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

 

تح مکہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا روشن و تابناک باب ہے کہ اسلام کی زیادہ تر سرخروئی اور سربلندی اسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد اسلام جتنا تیزی کے ساتھ پھیلا کبھی نہیں پھیلا تھا۔ اس فتح نے دنیا میں ایسا امن کا پیغام دیا، کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ صلح حدیبیہ کے عہد و پیمان میں میں یہ بات بھی تھی کہ جو شخص چاہے ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کرسکتا ہے،اور جو چاہے وہ کفار مکہ سے عہد کر سکتا ہے۔اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا، اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں مکہ کے قریب آباد تھے لیکن ان دونوں میں ہی عرصہ دراز سے سخت عداوت تھی۔

 

 

 

ایک زمانے سے کفار قریش اور دشمنان اسلام اپنا سارا زور اور ساری طاقت مسلمانوں سے جنگ و جدال کرنے میں صرف کرتے تھے۔ لیکن صلح حدیبیہ کے عہدوپیمان نے اس بات پر روک لگا دی، لیکن قبیلہ بنی بکر، قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہتا تھا۔عکرمہ بن ابی جہل اور صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو غیرہ سرداروں نے خزاعہ کا قتل عام شروع کر دیا۔ خزاعہ کے لوگ اپنی جان بچانے حرم کعبہ میں بھاگے، اور لوگوں نے ان کے قتل سے اپنا ہاتھ روک لیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار نوافل اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو گیا تھا کہ اس نے حرم کعبہ کی بھی پروا نہیں کی،اور وہاں پر بھی ان لوگوں کو قتل کیا، اور تیئس افراد کا خون بہایا۔ بنی خزاعہ پرحملہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کے مترادف تھا۔ اس حادثے کے بعد بنی خزاعہ کے سرادر عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کی قتل کی فریاد لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے، اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔

 

 

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پاک سے اس جنگ کی پوشیدگی کی دعا بھی فرمائی کہ کسی طور مسلمانوں کے مکہ پر چڑھائی کی خبر کفار قریش تک نہ پہنچ جائے۔ اس حوالے سے صحابہ کو ہمہ وقت مستعد رکھا گیا تھا کہ کوئی جاسوسی کرنے کی کوشش نہ کرے۔ حضرت حاطب بن ابی بَلتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک معزز صحابی تھے، انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ، اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس خط کا بتایا۔

 

 

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فوراً اس عورت کے پیچھے روانہ کیا تاکہ اس سے جاسوسی خط برآمد کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بَلتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے حاطب! یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں، میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں اور مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبر گیری و نگہداشت کرے، میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیز و اقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر احسان رکھ دیا، تا کہ میں ان کی ہمدردی حاصل کر لوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں۔

 

 

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پاس ایک قاصد بھیجا، جس نے ان کو جاکر تین شرائط سنائیں۔ بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔ قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہو جائے۔ اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کایہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔

 

 

جب قاصد نے تینوں شرطوں کو قریش مکہ کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے دونوں شرطوں کا صاف صاف انکار کردیا۔ لیکن تیسری شرط کے بارے میں کہا یہ منظور ہے، اور جا کر کہہ دو کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا جب قاصد ان کا جواب لے کر مکہ سے روانہ ہوا، تو قریش کو اپنے جواب پر بڑی شرمندگی ہوئی، اور انہیں اس بات کا بھر پوراحساس ہونے لگا کہ یہ جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیں گے اور اسی لئے انہوں نے ابوسفیان پر دباؤ ڈالا کہ وہ سرکار سے جا کر بات کریں۔

 

 

اس پر پر حضرت عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان ایک فخر پسند آدمی ہے اگر اس کے لئے بھی کوئی ایسی بات فرمادیں دی تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ تو آپ نے فرمایا جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے امان ہے۔ایسا امن و امان کا پروانہ چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ فاتح لشکر اپنے مفتوح اور دشمنوں سے انتقام لینے اور ان کی خون کی ندیاں بہانے کے بجائے ان کو امان دے رہا ہے اور صرف امان سے ہی نہیں رہا ہے بلکہ ان دشمنوں کے سردار کے گھروں میں داخل ہونے والا بھی محفوظ گردانا جا رہا ہے۔

 

 

قریش مکہ نے بنو خزہ نامی قبیلے پر جو کہ مسلمانوں کی زیر حفا ظت تھا حملہ کر دیا اور اسطرح صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی متا ثرہ قبیلے نے حضورﷺ سے مدد کی درخواست کی حضورﷺ نے مکہ والوں سے مطالبہ کیا کہ مرنے والوں کا خون بہا ا دا کیا جا ئے اور حملہ آوروں کی پشت پناہی نہ کی جائے یا پھر صلح حدیبیہ کی منسوخی کا اعلان کردیا جائے قریش مکہ نے اس کا جواب نہ دے کر یہ تاثر دیا کہ انہیں صلح میں مزید کو ئی دلچسپی نہیں تھی۔

 

 

قریش کے رویے سے مایوس ہو کر حضورﷺ دس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوئے اسلام اور پیغمبرﷺ کے سخت ترین دشمن، مکہ کے سردار ابوسفیان نے اطاعت کا اعلان کر دیا ایک معمولی تصادم کے سوا کوئی خون خرابہ نہیں ہوا اس فتح میں حضورﷺ نے خانہ کعبہ اور اپنی جائے پیدائش کا قبضہ حاصل کیا۔ عرب کا دل، مکہ حضورﷺ کے قدموں میں بچھا ہوا تھا اور قریش کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم کی جا چکی تھی بدلہ لینے کی بجائے حضورﷺ نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا پیغمبرﷺ نےکعبہ میں موجود بتوں کو توڑ کر اسے الله کی عبادت کیلئے وقف کر دیا اور خانہ کعبہ کی چابیاں روایتی محافظین کے حوالے کرکے آپﷺنے لو گوں سے فرمایاکہ وہ وہاں اطمینان اور سکون سے آ سکتے ہیں اس برتاؤ نے مکہ والوں کو بے حد متاثر کیا اور آپﷺ کی سخاوت کو عظمت و اخلاق کی انتہائی بلندی تصور کرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس حیرت انگیز مذ ہب میں داخل ہونے لگے جس نے نفرتوں کو محبت میں بدل دیا۔

 

 

اس عظیم الشان فتح کے وقت بار گاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع، عاجزی و انکساری کے آثار بھی چہرئہ انور پر نمایاں تھے۔ آپؐ اونٹنی پر سوار تھے، تواضع سے گردن جھکی ہوئی تھی ، آپؐکے خادم اور خادم زادہ حضرت اسامہ بن زید ؓ آپؐ کے ردیف تھے۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ جب آپؐ مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے تو تمام لوگ آپؐ کو دیکھ رہے تھے، لیکن آپؐ اس موقع پرتواضع کی وجہ سے سرجھکائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر محسن انسانیت ﷺ نے رواداری اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ امن کے قیام اور استحکام کے لیے ہدایات جاری فرمائیں کہ!

 

 

(1)جو کوئی ہتھیار پھینک دے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(2) جو کوئی خانۂ کعبہ کے اندر پہنچ جائے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(3) جو کوئی اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(4) جو کوئی ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہوجائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔(5) جو کوئی حکیم بن حزام کے گھر جا رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔(6) بھاگ جانے والے کاتعاقب نہ کیا جائے۔(7) زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔

 

 

بیت اللہ میں داخلہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر حضرت اسامہ بن زید کو اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا کر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال اورکلید بردار ِ کعبہ حضرت عثمان بن طلحہ بھی آپ کے ساتھ تھے آپ نے مسجد حرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا، کعبہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔خانہ کعبہ کے اندرون حصار میں 360 رکھے تھے ان کو گرایا، جو کعبہ کے اندر تھے حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں، جب تک ایک ایک بت خانہ کعبہ سے نکال نہ دیا گیا تب تک آپ نے خدا کے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا، تو آپ حضرت بلال، اسامہ اور عثمان بن طلحہ کے ساتھ کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے۔ اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی۔ پھر آپ باہر تشریف لے آئے۔ کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہر نکلے، تو حضرت عثمان بن طلحہ کو بلاکر کعبہ کی کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی
اور ارشاد فرمایا:

لو! یہ کنجی ہمیشہ کے لئے تم لوگوں میں رہے گی یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔

اور آک تک کعبہ مقدسہ کی چابھی آپ کی ہی نسل میں ہے ۔یہ رہی اس فتحِ عظیم کی کچھ جھلکیاں ۔ایسے اسلامی تاریخی واقعات سن کر ، بیان کرکے اپنے ایمانی حرارت کو پیدار کرنا بہت ضروری ہے ۔ ایسے اسلامی سچے واقعات اپنے نوجوانوں کو سنانا چاہیے تاکہ اس وہ جان سکیں کہ ہمارے بزرگوں نے اسلام کی خاظر کتنی قربانیاں پیش کی ہیں۔اسی میں ہماری نسلوں کی بقا ہے ۔

Leave a reply