زمین وآسمان کا پیداکرنے والا اللہ ہے ،اوروہی اپنے بندوں کی دعاوں کوسننے والا ہے ،علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی گفتگو
لاہور :زمین وآسمان کا پیداکرنے والا اللہ ہے ،اوروہی اپنے بندوں کی دعاوں کوسننے والا ہے ،علامہ حقانی ، علامہ موسوی کی گفتگو،تفصیلات کے مطابق آج حسب سابق رمضان ٹرانسمیشن میں علامہ عبد الشکورحقانی اورعلامہ سید حسنین موسوی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کیا ہے ، ،
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بیسویں پارے کا آغاز سورۃ نمل کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ شروع میں ہی اللہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحید کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اس کے سوا کون ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا اور آسمان سے پانی کو اتارا، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے باغات اگتے ہیں. اور کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرایا ہوا ہے اور اس میں پہاڑوں کو لگایا اور اس میں نہروں کو جاری کیا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی الٰہ ہے؟ پھر پوچھا، اللہ کے سوا کون ہے جو بے قراری کی حالت میں کی گئی دعاؤں کو سننے والا ہو اور جو تکلیف پہنچتی ہے اس کو دور کرنے والا ہو۔ اور اللہ کے سوا کون ہے جو خشکی اور رات کی تاریکیوں میں انسانوں کی رہنمائی کرنے والا ہے اور کون ہے جو خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجنے والا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے جو تخلیق کا آغاز کرنے والا ہو اور دوبارہ اس کو زندہ کرنے والا ہو اور کون ہے جو زمین و آسمان سے رزق عطا کرنے والا ہو؟ اس کے بعد اللہ چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمھارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد مشرکین کی اس غلط فہمی کہ جب ہم ہڈیوں کا چورا بن جائیں گے تو پھر دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے کا ازالہ کیا کہ جو اتنی زبردست قدرت کا مالک ہے اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں. ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی اور مشرکین کو انتباہ کیا کہ اگر تم اسی طرح نافرمانی کرتے رہے تو تمھارا بھی وہ حشر ہوگا جیسا پہلی اقوام کا ہوا. زمین میں چل پھر کر عبرت حاصل کرو اور دیکھو کہ اللہ نے فسادیوں کا کیا انجام کیا.
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ سورۃ نمل کے بعد سورۃ قصص ہے۔ فرعونوں کے سلسلے کے بادشاہ Thutmose-II کو اللہ نے بہت طاقت دی تھی لیکن وہ سرکش ہوگیا اور ظلم و ستم شروع کر دیے. اس نے اپنے زیر نگیں رعایا کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا. بنی اسرائیل اس وقت سب سے زیادہ مظلوم تھے. اللہ نے ان کو فرعون سے نجات دلانے کے لیے موسی علیہ السلام کو مبعوث کیا. شروع میں اللہ نے جنابِ موسیٰ کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ فرعون ایک برس بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرواتا اور اگلے برس ان کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ موسیٰ اس سال پیدا ہوئے جس سال فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا۔ اللہ نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں خیال ڈالا کہ جب خدشہ ہو کہ فرعون کے ہرکارے آ پہنچے ہیں تو بچے کو جھولے میں لٹا کر سمندر میں ڈال دیں۔ لہروں نے جھولے کو فرعون کے محل تک پہنچا دیا۔ فرعون کی بیوی آسیہ نے جھولے میں خوبصورت بچہ دیکھا تو میاں سے سفارش کی کہ اسے قتل نہ کریں، یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا۔ ہم اس کو بیٹا بنا لیں گے اور یہ ہمارے لیے نفع بخش بھی ہو سکتا ہے۔ بچے کو دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی تو جنابِ موسیٰ کی بہن نے کہا میں ایک عورت کو بلاتی ہوں جو اس بچے کو دودھ پلائے۔ یوں اللہ نے جنابِ موسیٰ کو ان کی والدہ سے ملا دیا۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ موسیٰ کو اللہ نے علم و حکمت سے بہرہ ور فرمایا۔ ایک دن فرعون کے قبیلے کا ایک آدمی بنی اسرائیل کے ایک آدمی سے لڑ رہا تھا. اس نے جب موسیٰ کو دیکھا تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی دہائی دی۔ جناب موسیٰ نے اس فرعونی کو ایسا گھونسہ مارا کہ وہ تھاں ڈھیر ہوگیا۔ یہ قتلِ سہو تھا۔ آپ نے پروردگار سے توبہ و استغفار کی جسے اللہ نے قبول فرمایا۔ اگلے دن وہ ڈرتے ڈرتے شہر میں داخل ہوئے تو وہی بنی اسرائیلی کسی اور سے گتھم گتھا تھا۔ جنابِ موسیٰ نے اس کی مدد کے لیے ہاتھ اٹھایا تو وہ سمجھا کہ آپ اسے مارنے لگے ہیں۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ہڑبڑاہٹ میں اس نے کل کے قتل کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اتنے میں موسیٰ کو اطلاع ملی کہ فرعون کے فرستادے ان کو تلاش کر رہے ہیں۔ اللہ نے جنابِ موسیٰ کی رہنمائی کی اور ان کو مدین کے گھاٹ پر پہنچا دیا۔ وہاں لوگ پانی نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے اور دو لڑکیاں بھی پانی لینے آئی تھیں لیکن ہجوم کی وجہ سے پانی لینے سے رکی ہوئی تھیں۔ آپ نے انسانی ہمدردی میں ان کے لیے پانی نکالا اور ایک طرف ہٹ کر سائے میں بیٹھ گئے۔ پھر بھوک چمکی تو خدا سے خیر کی دعا مانگی۔ یکایک انہی دو لڑکیوں میں سے ایک انتہائی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ جو ہمارے کام آئے ہیں اس کا صلہ دیا جا سکے۔ جنابِ موسیٰ مدین کے اس بزرگ شخص کے پاس پہنچے اور اپنے حالات سے آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ آپ میرے پاس رہیں اور اپنی ایک بیٹی کی شادی جنابِ موسیٰ سے کر دی۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ دس برس بعد جنابِ موسیٰ نے وطن واپسی کا ارادہ کیا۔ راستے میں طور پہاڑ کے پاس سے گزرے تو دور سے آگ جلتی نظر آئی۔ اہلیہ سے فرمانے لگے کہ تم ذرا ٹھہرو میں طور سے آگ لے کر آتا ہوں کہ اس سے سردی دور ہو جائے گی۔ طور پر پہنچے تو اللہ نے آواز دی: اے موسیٰ، میں خدائے عزیز و حکیم ہوں. یہاں آپ کو اللہ نے نبوت سے نوازا اور آپ کے عصا کو معجزاتی عصا اور آپ کے ہاتھ کو یدِ بیضا یعنی نورانی بنا دیا۔ آپ نے اللہ سے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا فرما دے۔ یہ دعا بھی قبول کر لی گئی۔ جنابِ موسیٰ فرعون کے پاس دعوت دین لے کر پہنچے تو اس نے دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ موسیٰ نے ہر طرح اس کو سمجھایا مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ اللہ نے اُسے اور اس کے لشکریوں کو سمندر میں ڈبو کر ہلاک کر دیا۔
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت موسی اور ان کی قوم کا یہ واقعہ اپنے اندر کئی نصائح اور حکمتیں لیے ہوئے ہے. مصائب و آلام میں صبر کرنا اور اللہ کی جانب متوجہ رہنا ہمیشہ اچھے نتائج دیتا ہے. آدمی جب مصائب و مشکلات میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے. جب آپ اللہ کے راستہ میں قربانی دیتے ہیں تو اللہ آپ کے دشمنوں میں ہی آپ کے حمایتی پیدا کر دیتے ہیں. باطل جس قدر طاقت ور کیوں نہ ہوں آخر اسے ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے. اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلانے کی عملی کوشش کرنا انبیاء کی سنت ہے.
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد اللہ نے سرمایہ داروں کی تنبیہہ کی غرض سے قارون کا قصہ ذکر کیا ہے جو بے تحاشہ مال کا مالک تھا. اس کے خزانوں کی کنجیاں ایک جماعت اٹھایا کرتی تھی. لیکن جب اسے غرور کرنے اور زمین میں فساد کرنے سے روکا گیا تو اس نے کہا یہ تو میرا مال ہے جو مجھے میری دانش کے بدلے ملا ہے، میں اسے جیسے چاہوں استعمال کروں. اس سرکرشی پر اللہ نے اسے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا. اس کے بعد اللہ نے سب باتوں کی ایک بات فرمائی کہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو ”بڑا بننے اور زمین پر فساد کرنے سے رک جائیں.”
علامہ عبدالشکورحقانی نے بیسویں پارے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد سورۃ عنکبوت ہے۔ اس کے شروع میں اللہ نے واضح کر دیا کہ جو بھی ایمان کا دعوٰی کرے گا وہ آزمایا جائے گا. اور یہ بات واضح کی جائے گی کہ کون کھرا ہے اور کون کھوٹا اور ہمیشہ سے ایسا ہوا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے وہ آزمائے گئے. اسی کی مثال کے طور پر اللہ نے اس سورت میں پچھلی قوموں اور افراد (حضرت نوح، ابراہیم، لوط، صالح علیہما السلام) کا ذکر کیا ہے جنھوں نے وقت کے حاکموں کے ظلم اور استبداد کی پروا نہ کی اور اللہ کی توحید پر بڑی استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اپنے ایمان کے دعوے کو عمل سے ثابت کیا تاکہ اہل ایمان سمجھ لیں کہ آزمائش تو آئے گی لیکن اس کے بعد فراخی و کامیابی ہوگی. اس سورت میں اللہ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مشرکوں کی مثال مکڑی کی ہے جو گھر بناتی ہے لیکن اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ اسی طرح مشرک غیر اللہ کو پکارتے ہیں مگر ان کی پکار میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ بے شک ان کا دعویٰ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتا ہے۔ اور بے شک گھروں میں کمزور ترین گھر مکڑی کا گھر ہے۔
علامہ سید حسنین موسوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الحمدللہ آج ہم بیسویں پارے کا خلاصہ پڑھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، جس کی ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت سے ثابت کئے گئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور آسمان سے بارش برسا کر زمین سے سبزہ اگایا، اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسان کا مسکن بنایا، اس میں نہریں جاری کیں اور بڑے وسیع و عریض پہاڑ بنائے، انسان اپنی مجبوری اور بے بسی میں اللہ ہی کو پکارتا ہے، انسان کو کس نے پیدا کیا اور دوبارہ کون زندہ کرے گا، یقیناً یہ اللہ کی ذات ہے، پھر اللہ کے ساتھ شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟
علامہ سید حسنین موسوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرکین اعتراض کرتے تھے کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ کیسے زندہ ہوںگے، جس پر اللہ نے اپنے حبیبﷺ کو تسلی دی اور کہا کہ ان سے کہو، زمین میں گھوم پھر کر دیکھو اور اپنےسے پہلی قوموں کے انجام سے عبرت پکڑو کہ وہ بھی یہ اعتراض کر کے عذاب الٰہی کا شکار ہوئے۔
علامہ سید حسنین موسوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پارے میں تین حصے ہیں:۔ سورۂ نمل (بقیہ حصہ)۔ سورۂ قصص (مکمل)۔ سورۂ عنکبوت (ابتدائی حصہ) سورۂ نمل کے بقیہ حصے میں دو باتیں یہ ہیں:۔ توحید کے پانچ دلائل آسمان ، زمین ، بارش اور کھیتیوں کا خالق وہی ہے۔زمین ، نہریں ، پہاڑ اور سمندروں کا نظام وہی چلاتا ہے۔ مجبور ، بے بس اور بیمار کی پکار اس کے علاوہ کوئی نہیں سنتا۔ بحری اور بری تاریکیوں میں راستہ وہی دکھاتا ہے ، اسی نے ہواؤں کانظام چلایا۔
علامہ سید حسنین موسوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا ، دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا ، رازق بھی وہی ہے قیامت (صور پھونکا جانا ، پہاڑوں کابادلوں کی طرح ہواؤں میں اڑنا ، روز قیامت سب کا جمع ہونا ، نیک لوگوں کو ان کی اچھائیوں کا انعام اور برے لوگوں کو ان کے کیے کی سزا کا ملنا) سورۂ قصص میں دو باتیں یہ ہیں:
۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا تفصیلی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قارون کا قصہ سورۂ عنکبوت کے ابتدائی حصے میں تین باتیں یہ ہیں:۱۔ توحید (مشرکین کے بت مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔) رسالت (آزمائش من جانب اللہ ضرور آتی ہے ، اس ضمن میں چند انبیائے کرام کے قصے مذکور ہیں۔) قیامت کا تذکرہ