عالمی ثقافتی ورثہ ٹیکسلا . تحریر : حسنین مغل

0
58

راولپنڈی سے 22 میل دور، شمال مغرب کی جانب ایک قدیم شہر’ٹیکسلا‘ آباد تھا۔ 326 ق م میں سکندراعظم نے اس شہرپرقبضہ کیا اوریہاں پانچ دن ٹھہرا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کی، جس کے بعد سکندرراجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باخترکے یونانی حکمران دیمریس نے 190 ق م میں گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایۂ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہرکی رونقیں پورے عروج پرتھیں اوریہ بدھ مت تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہورچینی سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں اس شہرکی عظمت وشوکت کا ذکرکیا ہے۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزارسکے ( جن میں بعض یونانی دورکے ہیں ) زیورات، ظروف اوردیگر نوادرات رکھے ہیں۔ ٹیکسلا میں زمانہ قبل ازمسیح کی عظیم باقیات یونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

مختلف نام ٹیکسلا کا قدیم شہردریائے سندھ اوردریائے جہلم کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ سنسکرت میں یہ تکشاسلا اورمقامی طورپر تاکاسلہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یونانیوں اوررومیوں نے اسے ٹیکسلا کہا۔ یہ شہرزمانہ قدیم کے تین اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ جنوبی ہند، مغربی اور وسطی ایشیائی تجارتی راستے یہیں پرملتے تھے۔ قدیم جین مندرقدیم یورپی اقوام سکندراعظم کے ہندوستان پرحملے کرنے کے وقت سے ٹیکسلا کے نام سے واقف تھیں۔ چھٹی صدی قبل ازمسیح میں ٹیکسلا ایران کا ایک صوبہ تھا۔ بعد کی صدیوں میں یہ شہر کم از کم سات ادوار میں مختلف نسلوں کے شاہی خاندانوں کی حکمرانی میں رہا۔
بازار جواب کھنڈرہیں ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے پہلی مرتبہ کھدائی برطانوی نوآبادیاتی دورمیں آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا نے 1913ء میں شروع کی تھی، جو1934ء تک جاری رہی۔ پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اورپاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں کھدائی کرتے رہے۔ اس وقت جہاں خشک گھاس اورپتھر نظرآتے ہیں، وہاں صدیوں پہلے بھرے بازاروں میں انسانوں کی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔

اسٹوپے اورخانقاہیںوادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریبا دو درجن سے زیادہ اسٹوپے اورخانقاہیں دریافت ہوچکی ہیں۔ ان میں دھرما راجیکا، جولیاں، موہڑہ مرادو، پیلاں، گڑی، بھمالا، جنڈیال، جناں والی ڈھیری، بادل پور، بھلڑ توپ، کنالہ اورکلاوان نامی مقامات شامل ہیں۔
قدیم ٹیکسلا کی یونیورسٹیقدیم ٹیکسلا شہر کے کھنڈرات کے آخرمیں شہزادہ کنالہ کے اسٹوپا کی جانب ایک مرکزی اورشاندارمقام ایسا بھی آتا ہے، جو پاکستان کے معروف ماہر آثار قدیمہ پروفیسر دانی کے بقول وہی جگہ ہے جہاں صدیوں پہلے ٹیکسلا کی مشہور یونیورسٹی قائم تھی۔
شہزادہ کنالہ کا اسٹوپا ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی سے کچھ دورشہزادہ کنالہ کا اسٹوپا ہے۔ اس اسٹوپے کے قریب کبھی ایک شاندارعمارت قائم تھی۔ اب وہاں صرف اس عمارت کی پتھریلی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ اس مقام اوراس کے قرب و جوار میں کھدائی سے بھی ماہرین کو بہت سے قدیم سکوں کے علاوہ مٹی اوردھات کے بنے برتن ملے تھے۔

نازک لیکن تاحال محفوظماہرین آثارقدیمہ کو موہڑہ مرادو کے ایوان مجلس کے کمرہ نمبر نوسے ملنے والا اسٹوپا ، چونے مٹی کا بنا ہوا ہے لیکن صدیاں گزرجانے کے باوجود اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اسی خانقاہ سے ماہرین کو چونے مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی ملے ہیں۔ موہڑہ مرادو سے ملنے والے دیگر نوادرات میں کھانے پینے کے برتن، گھریلو استعمال کا سامان، مختلف اوزاراورتانبے کے برتن بھی شامل ہیں۔ ٹیکسلا میوزیمٹیکسلا میوزیم پاکستان کے خوبصورت ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ ہری پور روڈ پر واقع اس میوزیم کا نقشہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے پرنسپل سلیوان نے تیار کیا تھا۔ اس کی بنیاد برٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے رکھی تھی۔ اس میوزیم میں ٹیکسلا سے دریافت شدہ 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں لیکن عجائب گھر کے اندر فوٹوگرافی کی اجازت نہیں ہے۔

سِرکپسِرکپ شہرکی تاریخی باقیات ٹیکسلا میوزیم سے قریب دو کلومیٹرکے فاصلے پرہیں۔ دوسری صدی قبل ازمسیح میں باخترکے یونانی ٹیکسلا پر حملہ آور ہوئے تو موریہ سلطنت ختم کر کے انہوں نے اپنی حکومت قائم کی اورایک نیا شہرسِرکپ آباد کیا۔ یہ شہرشطرنج کی بساط کی طرزپرآباد کیا گیا تھا۔ سیدھی گلیوں اوربازار کے باعث اس کے کھنڈرات بھی بہت منفرد ہیں۔ یہ شہرایک ایسی فصیل کے اندرآباد تھا، جس میں چاردروازے تھے۔

موہڑہ مرادوٹیکسلا میوزیم سے مشرق کی سمت قریب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ موہڑہ مرادو واقع ہے۔ یہ بدھ مت عبادت گاہ، مرکزی اسٹوپا اورخانقاہ کی باقیات پرمشتمل ہے، جہاں پُجاریوں کے رہائشی کمرے، ان کا ایوان، باورچی خانہ، غسل خانہ اورگودام ہوا کرتے تھے۔ باقیات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس دور میں بھی کتنے تعمیراتی نظم و ضبط سے کام لیا گیا تھا۔ دو ہزارسال پرانی باقیات وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر باقیات پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دھرما راجیکا اسٹوپا تیسری صدی عیسوی کے دورکا ہے، جسے 1980ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا۔ ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات آج بھی حیران کن حد تک اچھی اورواضح حالت میں موجود ہیں۔

@HasiPTI

Leave a reply