ترمیم شدہ پیکا ایکٹ، کیا پولیس کے اختیارات ختم ہو گئے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان میں سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ(پیکا2016 )ڈیجیٹل جرائم جیسے ہیکنگ، ڈیٹا کی چوری، سائبر اسٹاکنگ، آن لائن ہراسانی اور نفرت انگیز تقریر کی روک تھام کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔جیو فیکٹ چیک کے مطابق ابتدائی طور پر اس قانون نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) کو سائبر کرائمز کی تفتیش کا مرکزی ادارہ نامزد کیا تھا جبکہ پولیس کا کردار محدود تھا۔ 2023 کی ترامیم نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی، لیکن تفتیش کے لیے مقدمات ایف آئی اے کو منتقل کیے جاتے تھے، 2025 کی ترامیم نے پولیس کے کردار کو مکمل طور پر ختم کر کے تمام اختیارات ایک نئے ادارے، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)، کو منتقل کر دیے ہیں

پنجاب پولیس نے دعوی کیا کہ جنوری 2025 میں پیکا ایکٹ کی ترامیم کے باوجود، انہیں سائبر کرائمز کے مقدمات درج کرنے اور ان کی تفتیش کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے قانون کی دفعہ 50A کا حوالہ دیا، جس کے مطابق جب تک NCCIA مکمل طور پر فعال نہیں ہو جاتی، ترمیم سے پہلے موجود تفتیشی ادارہ اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔ اس دعوے کے تحت لاہور پولیس نے 22 اپریل 2025 کو فیس بک، ایکس اور واٹس ایپ پر "نفرت انگیز تقریر” اور ریاستی عہدیداروں کو بدنام کرنے کے الزامات میں 23 ایف آئی آرز درج کیں۔ تاہم ایک حالیہ جیو فیکٹ چیک رپورٹ اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔ ماہرین، ایک سرکاری اہلکاراور عدالتی حکم کے مطابق ترمیم شدہ قانون کے تحت پولیس کے پاس پیکا کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ۔ 18مئی 2025 کونیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمود الحسن نے واضح کیا کہ پیکا کی دفعہ 30 کے تحت تمام اختیارات NCCIA کو منتقل کر دیے گئے ہیںاور پولیس سے یہ اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں۔

ایک ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ نے کہا کہ 2016 میں ایف آئی اے کو واحد تفتیشی ادارہ نامزد کیا گیا تھا اور 2023 کی ترامیم نے پولیس کو صرف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن 2025 کی ترامیم نے پولیس کا کردار مکمل طور پر ختم کر دیا۔ ان کے مطابق پولیس کی جانب سے درج کی گئی کوئی بھی ایف آئی آر اب قانونی حیثیت نہیں رکھتی ۔ سپریم کورٹ کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ دفعہ 50A صرف FIA کے تفتیشی اختیارات کو NCCIA کے قیام تک برقرار رکھتا ہے اور پولیس کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس لیے ان کا اختیار خود بخود ختم ہو چکا ہے۔ وکیل اسد جمال نے بھی تصدیق کی کہ صرف NCCIA کو ترمیم شدہ پیکا کے تحت دائرہ اختیار حاصل ہے جبکہ پولیس اور FIA دونوں کو اس سے روک دیا گیا ہے۔

30 اپریل 2025 کو کراچی کے ضلع ملیر کے سول جج مظہر علی نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا کہ پولیس کو پیکا کے تحت تفتیش کا اختیار نہیں ہے۔ یہ مقدمہ ایک فیس بک صارف کے خلاف درج کیا گیا تھا، جس پر صدرِ پاکستان کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے کا الزام تھا۔ جج نے لکھا کہ پیکا کی دفعہ 29 کے تحت صرف NCCIA کو یہ اختیار حاصل ہے اور مقدمہ بعد میں خارج کر دیا گیا۔

12نومبر2024کی ایکسپریس اردو کے مطابق پیکا ایکٹ کے تحت پولیس کا کردار ہمیشہ سے محدود رہا ہے اور ماہرین نے اس پر تنقید کی کہ پولیس کے پاس سائبر کرائمز کی تفتیش کے لیے نہ تو مناسب تربیت تھی اور نہ ہی تکنیکی صلاحیت ۔21جنوری 2022کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے اور پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے خواتین درخواست گزاروں کو آن لائن ہراسانی کے مقدمات میں انصاف نہیں مل سکا ۔ مزید برآں 3مئی 2024کی بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے پیکا ایکٹ کا غلط استعمال بھی رپورٹ ہوا، جیسے کہ سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کے لیے مقدمات درج کرنا شامل ہیں۔

15دسمبر2024کو ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق 4اپریل 2025 کو وفاقی حکومت نے NCCIA کی باضابطہ تشکیل کی اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی تعینات کیا۔ اس نئے ادارے کا مقصد سائبر کرائمز کی تفتیش کو زیادہ موثر اور پیشہ ورانہ بنانا ہے۔ NCCIA کو جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ اہلکاروں کے ساتھ لیس کیا گیا ہے تاکہ ڈیجیٹل جرائم، جیسے کہ فشنگ، ڈیپ فیک، اور آن لائن فراڈ، سے نمٹا جا سکے۔ تاہم ڈان نیوز کی ایک اور رپورٹ جو 25جنوری2025کو شائع ہوئی کہ NCCIA کے قیام نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹس کا خیال ہے کہ اس نئے ادارے کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر کنٹرول بڑھانا چاہتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ پیکا ترمیمی بل 2025 ڈیجیٹل منظرنامے پر حکومتی گرفت کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔

2025 کی ترامیم کے بعد پیکا ایکٹ کے تحت پولیس کا کوئی قانونی کردار باقی نہیں رہا۔ تمام اختیارات NCCIA کو منتقل کر دیے گئے ہیں اور پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آرز قانونی جواز سے محروم ہیں۔ ماہرین اور عدالتی فیصلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پولیس کو اب نہ تو مقدمات درج کرنے اور نہ ہی تفتیش کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ تبدیلی عوام کے لیے الجھن کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ سائبر کرائمز کی شکایات کے لیے اب NCCIA سے رجوع کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نئے ادارے کی صلاحیت کو مضبوط کرے اور عوام میں اس کے کردار کے بارے میں آگاہی پیدا کرے تاکہ سائبر کرائمز کے متاثرین کو فوری اور موثر انصاف مل سکے۔

Shares: