امریکا اپنی ہی لگائی آگ میں خود بھی جلنے لگا

واشنگٹن :امریکا ان دنوں تشدد، خودکشی اور قتل جیسے واقعات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق قتل کے اکثر واقعات میں امریکیوں نے آسانی سے چلنے والی سیمی آٹومیٹک اسالٹ رائفلیں استعمال کیں جو انہیں مارکیٹ سے انتہائی کم قیمت پر اور با آسانی میسر آئیں۔
امریکی محکمہ انصاف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں 2000ء میں سالانہ 39 لاکھ کمرشل استعمال کی بندوقیں تیار ہوتی تھیں جن کی تعداد 20 برسوں میں بڑھ کر ایک کروڑ تیرہ لاکھ تک پہنچ گئی۔ صرف 2020ء میں ساڑھے 55 لاکھ پستول اور تقریباً 10 لاکھ ریوالور تیار کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد امریکا کی کمرشل مارکیٹ کے لیے 13 کروڑ 90 لاکھ بندوقیں تیار کی گئیں جبکہ اسی عرصے میں 71 ملین بندوقیں درآمد بھی کی گئیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا موناکو کا کہنا ہے کہ امریکا میں تشدد کی لہر میں حالیہ اضافے کو صرف اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے جب دستیاب معلومات کی بنیاد پر مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے رپورٹ کو بہتری کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ انصاف تمام ضروری ڈیٹا اکٹھا کرے گا جو تشدد کے اس قسم کے واقعات کا محرک بنتا ہے۔
خیال رہے کہ 14 مئی بروز ہفتہ امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو میں 18 سالہ پیٹن جینڈرون نامی نوجوان نے ایک سپرمارکیٹ میں فائرنگ کرکے 10 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے اگلے ہی روز اتوار کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک گرجا گھر میں ایک حملہ آور نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک اور پانچ کو زخمی کر دیا۔
امریکی سنٹرز آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے گزشتہ ہفتے بتایا کہ امریکا میں 2020ء میں اسلحے کے ذریعے قتل کے واقعات میں بڑا اضافہ دیکھا گیا۔ 2020ء میں قتل کے ایسے 19350 واقعات پیش آئے جو 2019ء کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ تھے۔ 2020ء میں اسلحے کے ذریعے خودکشی کے 24245 واقعات پیش آئے جو 2019ء کی نسبت ڈیڑھ فیصد زیادہ تھے۔
محکمہ انصاف کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں حکام نے 19244 ہتھیار ضبط کیے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں صرف 1758 ہتھیار قبضے میں لیے گئے تھے۔