شہزاد اکبر کتنے قابل ہیں؟براڈ شیٹ کمیشن کا انجام کیا ہوگا؟ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادرکا مبشر لقمان کے ساتھ خصوصی انٹرویو

0
42

سینئیر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان کا کہنا ہے کہ براڈ شیٹ کیس میں نئے نئے حقائق اور انکشافات سامنے آ رہے ہیں اور اس سے ایسا بھی لگتا ہے کہ اس کے تانے بانے پاکستان سے مل رہے ہیں میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو مشرف کے ٹائم پر تھے آج وہی لوگ حکومت میں ہیں اور جو مشرف کے ساتھ بُرا حال ہوا اور جس طرح اس کو فیل کروایا گیا کیا آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن براڈ شیٹ کے قانون میں ہم نے کہاں پر غلطی کی اور مزید غلطی کر رہے ہیں وہ کیا ہے-

باغی ٹی وی : گزشتہ روز مبشر لقمان نے اپنے یو ٹیوب چینل کے شو میں جنرل اٹارنی عرفان قادر کو مدعو کیا جس میں انہوں نے براڈ شیٹ کیس کے حوالے سے سوالات کئے-

پاکستان کے چیف لاء آفیسر اور سابق اٹارنی اٹارنی عرفان قادر جنرل مشرف کے ٹائم سےسب سے زیادہ ان چیزوں کو دیکھ چکے ہیں اور ابھی بھی دیکھ رہے ہیں نے براڈ شہٹ کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا-

مبشر لقمان نے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں ایسا قانون ہونا چاہیئے کہ جو شخص ایک بار کسی ایک حکومت میں کم سے کم ایک سال رہ چکا ہے وہ کسی دوسری پارٹی کی حکومت میں نہ ہو-کیونکہ سارے جاتے ہیں ادھر ادھر سے میل ملاپ کر کے تو ساروں کو فیل کروا دیتے ہیں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا اور فنڈا مینٹل رائٹس کو لے آئیں گے-

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس بات پر کہا کہ انہیں ایسا کوئی قانون نہیں ہو سکتا اور فنڈا منٹل کی بات ہی نہیں یہ سیدھی سادھی سینس کی بات ہے کہ حکومت میں جو لوگ تجربہ رکھتے ہیں حکومت کی معاونت کرنے میں تو آپ اگر ان کو ہی نکال دیں گے اور کسی کو لے آئیں گے تو نظام کیسے چلے گا-

اس پر مبشر لقمان نے کہا کہ کسی اور ملک میں تو ایسا نہیں ہوتا یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی ایسا نہیں ہوتا وہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اپنے دوست شہزاد اکبر کا دفاع کر ر ہے ہیں کہ مشرف کو بھی مروانے والا وہ اور ابھی عمران خان کو بھی مروائے وہ الگ بات ہے-

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ شہزاد اکبر کی مشرف کے ٹائم پر ایسی کوئی پوزیشن نہیں تھی وہ کنسلٹنٹ تھے اور بڑا وہ لوئر ٹئیر تھا –

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اتنی تو پاکستان یں کسی پارٹی کے ہیڈ نے پریس کانفرنسز نہیں کیں جتنی پچھلے ایک سال میں شہزاد اکبر نے کر دی ہیں-

سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ اس وقت وہ اس حکومت کا بہت ضروری حصہ بنے ہوئے ہیں-

سینئیر اینکر پرسن نے اس پر کہا کہ لیکن کیا فائدہ ایسی کانفرنسز کا کہ آپ کیسز ہار رہے ہیں آپ سے دفاع کیا نہیں جا تا آپ کا کوئی ثبوت ہے نہیں اور پاکستان حکومت کو اور ریاست کو باہر انہوں نے مذاق بنو دیا-

عرفان قادر نے مبشر لقمان کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہاں یہاں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ شہزاد اکبر کو اپنے دائرے میں رہ کر بات کرنا چاہیئے اور اگر وہ صحیح لیگل ایکسپرٹ ہیں اور ان کے پاس جتنی مہارت ہے تو وہ اسی حد تک رہیں –

مبشر لقمان نے سوال پوچھا کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ بتائیں کہ کیا وہ سچ میں لیگل ایکسپرٹ ہیں؟

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کو ہمارے ٹائم پر کنسلٹنٹ رکھا تھا وکالت میں ان کے تجربے کے بارے میں مجھے زیادہ نہیں پتہ میرا نہیں خیال کہ انہوں نے کیسز زیادہ کئے ہوئے کوئی سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں انہوں نے کیسز نہیں کئے کوئی لانگ ٹرم کا ان کا میرا نہیں خیال کہ ایسا کوئی تجربہ ہے-

مبشر لقمان نے پوچھا کہ کیا جب مشرف کے دور میں براڈ شیٹ ہائر ہوئی ہے تب بھی اس میں شہزاد اکبر تھے؟

اس پرعرفان قادر کا کہنا تھا کہ نہیں تب اس میں نہیں تھے وہ بہت بیگ گراؤنڈ میں تھے کسی امپورٹنٹ پوزیشن میں نہیں تھے ان کا کوئی ایسا کردار نیب میں نہیں ہوتا تھا-

مبشر لقمان نے کہا کہ براڈ شیٹ کا کیس ہار گئے ہیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں برطانیہ کی عدالت نے آپ کو جھوٹا ثابت کر دیا-

عرفان قادر نے کہا بد قسمتی سے یہ بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ ہم براڈ شیٹ کا کیس ہار گئے ہیں ریاست پاکستان کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے اس کی اگر ساری ہسٹری دیکھیں تو سب سے پہلے میں سمجھتا ہوں کہ براڈ شیٹ کے ساتھ اثاثہ جات کو تلاشنے کے معاہدے ہونے ہی نہیں چاہیئے تھے اور اگر ہوئے بھی تھے تو پھر کم سے کم ان معاہدوں میں بہت ساری مبہم غلطیاں ہیں نہیں ہونی چاہیئں تھیں ان کو کلئیرٹی کے ساتھ وہاں پر بیان کرنا چایئے تھا سب سے بڑا ایشو وہاں سے اٹھا کہ جو اثاثہ جات کو وہ تلاشتے ہیں یا نہیں تلاشتے تو ان کو پھر بھی پاکستان کے اندر یا باہر سے ریکوریز ہوتی ہیں تو ان کو ان میں سے حصہ ملے گا تو اس طرح کا اس معاہدے سے جو امیریشن پیدا ہوا ہے یہ معاہدہ خود بے اعتدالی کا شکار ہے اور اس طرح کے معاہدے میں تو عمل درآمد ہونا ہی نہیں چاہیئے اور ایسا معاہدہ جو غیر مہذب ہو ایک چیز ہوتی ہے کمرشل کامن سینس اور کوئی بھی معاہدہ اگر کمرشل کامن سینس کی نفی کر رہا ہو اور کوئی بھی معاہدہ تیار کرنے والا یعنی ڈرافٹر آف دی ایگریمنٹ کوئی بھی معاہدہ آپ کے سامنے رکھے اور اس میں کوئی بھی متعصب بات نظر آئے تو ساری دنیا میں مسلمہ اصول ہے س کا وہ لاطینی زبان میں ڈاکٹرائن ہے اسے ہم کہتے ہیں ڈاکٹرائن آف کنٹرا پرفرینٹم اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے یہ ڈرافٹ کیا اگر کل وہ اس میں کوئی بھی ابہام آتا ہے تو اس کے خلاف یہ استعمال ہو گا لیکن یہاں پر یہ نہیں ہوا ہہاں پر ساری تشریح پاکستان کے خلاف ہو گئی ہے

اور یہ ڈرافٹر براڈ شیٹ والے تھے یہ پاکستان نے ڈرافٹ نہیں کیا تھا یہ جنرل امجد کے ٹائم پر جو نیب ہے اس وقت کی انہوں نے ڈرافٹ نہیں کیا تھا-

مبشر لقمان نے کہا کہ اس پر آرگیو کیوں نہیں کیا گیا؟-

عرفان قادر نے کہا کہ س پر آرگیو کرنا چاہیئے تھا جن لوگوں نے انگلش کورٹ میں یہ کیس ہینڈل کیا یا جن لوگوں نے یہ کمپرونائز کر لیا تھا جیری جیم کے ساتھ یہ سوال ان لوگوں سے کریں تو وہ بہتر طریقے سے جواب دے سکتے ہیں-

Leave a reply