امریکی صحافی کے سخت سوالات: پریس کانفرنس میں امریکا کی دوہری پالیسی بے نقاب
واشنگٹن: ایک حالیہ پریس بریفنگ کے دوران، ایک امریکی صحافی نے اپنے سوالات کے ذریعے امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کی، جس نے امریکا کی دوہری معیارات کو عیاں کر دیا۔ صحافی نے خاص طور پر اسرائیل کے ایران پر ممکنہ حملے، یوکرین میں روس کے خلاف کارروائیاں، اور بائیڈن انتظامیہ کی غزہ میں نسل کُشی کے حوالے سے سرگرمیوں پر سوالات اٹھائے۔صحافی نے کہا، "جولائی میں وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایران دو ہفتوں میں ایٹمی ہتھیار حاصل کر لے گا۔ میرے خیال میں، اب تک ایران ایٹم بم بنا چکا ہوگا۔” اس سوال نے بریفنگ کے دوران موجود افراد کو چوکنا کر دیا، کیونکہ یہ سوال امریکا کی اپنی ایٹمی پالیسیوں اور ایران کے خلاف عائد الزامات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
اس کے بعد صحافی نے یوکرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "یوکرین نے روس کے علاقوں میں کئی حملے کیے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ روس کے پاس چھ ہزار ایٹم بم ہیں۔” انہوں نے مزید کہا، "ایک ایٹمی طاقت کے خلاف ملیشیا کو مسلح کرنا انتہائی خطرناک ہے۔” اس تنقید نے امریکا کی خارجہ پالیسی پر سوال اٹھایا کہ کیا یہ واقعی عالمی امن کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا؟صحافی نے انتباہ کرتے ہوئے کہا، "اگر ایٹمی جنگ چھڑی تو انسانیت کی تمام تر محنت لمحوں میں تباہ ہو جائے گی۔” ان کے اس بیان نے یہ ظاہر کیا کہ ایٹمی جنگ کے ممکنہ اثرات کی سنجیدگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی صحافی نے بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "آپ کہتے ہیں کہ پوٹن اور خمینی دہشت گرد ہیں، لیکن آپ نے غزہ میں نسل کُشی کے لیے فنڈنگ کی ہے۔ آپ روزانہ آکر دوسری قوموں کی اخلاقیات پر لیکچر دیتے ہیں، لیکن آپ کے پاس کیا حق ہے؟صحافی کے سوالات پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر واضح طور پر تلملا گئے۔ انہوں نے جواب دیا، "اگر آپ پالیسی کے مطابق سوال کریں گے تو میں جواب دوں گا۔” لیکن صحافی نے جواب دیا کہ "آپ ایٹمی جنگ چھیڑنے کا رسک لے رہے ہیں تو سوالوں کے جواب بھی دیں۔” اس پر ملر نے جواب دینے کے بجائے دوسرے صحافی کی طرف اشارہ کیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں سوالات کے جواب دینا کتنا مشکل ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ حکومتی پالیسیوں کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اس پریس بریفنگ نے امریکا کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم سوالات اٹھائے ہیں اور یہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی سطح پر مسائل کا سامنا کرنے کے لیے شفافیت اور جوابدہی کتنی ضروری ہے۔