امریکی اڈے اور پاکستان کی افغان پالیسی.تحریر:احمد فراز گبول

0
34

گزشتہ کچھ روز سے مختلف سوشل پلیٹ فارمز پر ایک ایشو کو لے کر بہت زیادہ گفت و شنید دیکھنے میں آ رہی ہے اور پاکستانی عوام بھی ایک شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کیا واقعی پاکستان نے امریکہ کو ملٹری بیس فراہم کر دیئے ہیں یا نہیں؟ یہ ٹاپک پینٹاگون سے لے کر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے چائے کے ڈھابوں تک برابر زیرِ بحث ہے۔ آئیے آج اس معاملے کے کچھ حقائق کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب سے امریکی انخلا کی خبریں آنی شروع ہوئیں ساتھ ہی افغان طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے 34 میں سے 26 صوبوں میں اس وقت جنگ جاری ہے گزشتہ دو دنوں میں افغان طالبان کا نشانہ بننے والے افغان سیکیورٹی فورسز کے مقتولین کی تعداد 150 سے بڑھ چکی ہے۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا واقعی یہ اعدادوشمار شمار درست ہیں یا امریکہ کو ہوائی اڈوں کی فراہمی کے لئے حالات کو سازگار بنانے کے لئے گراؤنڈ ورک کیا جا رہا ہے
گزشتہ دنوں امریکہ کے انڈو پیسفک افیئرز کے نائب دفاعی سیکریٹری نے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو اپنی سرزمین پر اڈے دینے کو تیار ہے، تاکہ انخلا کے بعد امریکہ خطے پر اپنی نظر رکھ سکے اور افغانستان میں امن کو یقینی بنا سکے۔ جبکہ دوسری جانب وزیرِ خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے اس عمل کی ناصرف سختی سے تردید کی ہے بلکہ واضح بھی کر دیا ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں دے گا۔
ماضی میں دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں شامل ہو کر پاکستان نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ ہماری معیشت تباہ ہوئی، بے شمار جانی نقصان ہوا، پاکستان خود دہشتگردوں کا ہدف بن گیا اور دنیا بھر میں پاکستان کو دہشتگرد ریاست ڈیکلیئر کرنے کے لئے انڈین لابی نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ اس کے علاوہ منشیات اور کلاشنکوف کلچر رائج ہوا جس کے نتائج پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ اگر دنیا میں کسی ملک نے دہشتگردی کے خلاف حقیقی قربانیاں دی ہیں تو وہ پاکستان ہے لیکن اس کے باوجود بھی "ڈو مور” اور "دہشتگرد” جیسے خطابات بھی پاکستان کو دیئے گئے۔ لیکن اب پاکستان کی موجودہ قیادت یہ غلطی دہرانے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی۔ جس کے پیچھے اور بھی بہت سارے عناصر ہیں۔
اگر ہم کچھ اندرونی معاملات پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت معاشی اور تجارتی حوالے سے دنیا کے تین ملک آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ امریکہ، روس اور چین۔ جن میں سے دو ملک ایشیائی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی امریکہ ایشیا پر کسی نہ کسی طرح اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں جو کہ باقی ایشیائی ممالک کے لئے تجارتی مسائل کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی ایشو بھی ہے۔ فرض کریں اگر امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا ہو جاتا ہے تو خطے میں امریکہ کی موجودگی ختم ہو جائے گی اور دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اپنی لابی افغانستان میں بیٹھ کر کنٹرول کر رہا تھا جو کہ روس اور چین کے لئے بھی مسئلہ تھا۔ لیکن اب امریکی انخلا کے بعد روس اور چین کے لئے میدان صاف ہو جائے گا، جو کہ امریکہ نہیں چاہتا اس لئے پاکستان کے انکار کے بعد امریکہ نے ازبکستان اور تاجکستان سے بھی زمینی اور فضائی رسائی کی ڈیل کرنا چاہی جو کہ چین کے پریشر کی وجہ سے ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ ان ممالک کی سرحدیں چین کے قریب ہیں۔ روس اور چین کے علاوہ افغان طالبان بھی خبردار کر رہے ہیں کہ کوئی ہمسایہ ملک امریکہ کو اڈے دینے کی غلطی نا کرے۔

کچھ عرصہ پہلے روس کی طرف سے پاکستان کو "بلینک چیک” کی آفر بھی اسی حوالے سے تھی تاکہ پاکستان امریکہ کی مزید مدد نہ کرے اور خطے کو امریکہ سے خالی کیا جا سکے۔
اگر ہم پاکستان کے حالات دیکھیں تو پاکستان نے "منٹھار بس تھیوری” چھوڑ کر ایک مناسب اور مضبوط حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اب بجائے کسی لابی کا حصہ بننے کے پاکستان اپنی خودمختاری کو منوا رہا ہے۔ پاکستان اب جی حضوری کی بجائے جارحانہ حکمت عملی پر گامزن ہے اور ساتھ پاکستان اب چین کا معاشی شراکت دار بھی بن چکا ہے۔ کوئی بھی کاروباری انسان جھگڑوں کا شوقین نہیں ہوتا اس لئے اب پاکستان نے بھی بجائے جنگ کے معاشی سوچ اپنا لی ہے۔ سی پیک و بیلٹ اینڈ روڈ اور افغان جنگ ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لئے پاکستان نے وہی فیصلہ کرنا تھا جو اپنے مفادات کا دفاع کرے لہٰذا پاکستان نے جنگی راستہ چھوڑ کر معاشی راستہ اپنایا۔
امریکی انخلا اور عدم موجودگی کا سب سے بڑا فائدہ چین کو ہو گا۔ چینی سرمایہ کار افغانستان کے ذریعے ایران اور مشرق وسطیٰ تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ ساتھ ہی وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان بھی سی پیک تک آسان رسائی حاصل کر سکیں گے۔ جبکہ دوسری طرف روسی اسلحے کی انڈسٹری کے بھی چمکنے کے امکانات ہیں۔ کیونکہ یورپ کے بعد پورے ایشیا میں صرف افغانستان ہی امریکہ کا دفتر بنا ہوا تھا جس کی وجہ سے امریکہ اپنی چودھراہٹ کے ساتھ ساتھ دکانداری بھی چمکا رہا تھا جو کہ اب کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
موجودہ حالات اور روس کی پاکستان کے ساتھ بڑھتی دلچسپی کے پیشِ نظر یہی نظر آ رہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کو نکالنا بھی روس اور چین کا پلان تھا جو پاکستان کے ذریعے مکمل ہوا اور مستقبل میں بھی امریکہ کو اس خطے میں کوئی اڈہ یا ٹھکانہ نہیں ملے گا۔ آنے والا دور اسلحے اور بارود کا نہیں بلکہ ایک مستحکم اور معاشی پاکستان کا دور ہے، سی پیک کا دور ہے اور گوادر کے عروج کا زمانہ ہے۔ لہٰذا یہ اڈوں اور جنگوں کے قصے اب نہیں دہرائے جائیں گے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اللہ پاک وطنِ عزیز کو سلامت رکھے۔ پاکستان زندہ باد

Leave a reply