انگریز چین دشمنی کے ساتھ چین کے چائے کا فارمولا چرانے میں ملوث — عبدالحفیظ چنیوٹی

0
41

دنیا کے دو ارب انسان روزانہ صبح کا آغاز چائے کی پیالی سے کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن وہ چائے کی متعلق نہیں جانتے۔

چائے کی تاریخ

2737 قبل مسیح میں چین کا بادشاہ

شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا، کہ اس کاملازم اس کے لئے پینے کا پانی {گرم کرکے} کرلایا، اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہوگیا، بادشاہ بہت حیران ہوا، اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی۔

اور اسکے منہ سے "چھا” نکلا غالباً وہ حیران ہوگیا تھا کہ یہ کیا ہے؟؟

اور اس نے اس درخت کا نام ہی "چھا” رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہوگیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔

وہ ماہرِ نباتات بھی تھالہٰذا اس نے وقتاً فوقتاً کھولے ہوئے پانی میں چائے کا پتّا ملا کر پینا شروع کردیا۔

چائے دنیا کا پسندیدہ مشروب ہے۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔

پھر اس میں ضرورت اور مرضی کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے ہیں چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔

چائے اور اس کی انگریزی "ٹی” T گیا دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین ہے۔

فارچیون ایسٹ انڈیا کا جاسوس تھا جو چین کے ممنوعہ علاقے میں گیا، وہاں جاسوس کی حیثیت سے کام کیا اور چائے کی کاشت کا صدیوں پرانا راز چرا کر لایا اور بھارت کے علاقہ آسام میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارچیون کی نگرانی میں پودے اگانا شروع کردئیے۔

لیکن انھوں نے اس معاملے میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔فارچیون جو پودے لے کر آیا تھا وہ چین کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ٹھنڈے موسموں کے عادی تھے۔ آسام کی گرم موطوب ہوا انھیں راس نہیں آئی اور وہ ایک کے بعد ایک کر کے سوکھتے چلے گئے۔

اس سے قبل کہ یہ تمام مشقت بےسود چلی جاتی، اسی دوران ایک عجیب و غریب اتفاق ہوا۔

اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش قسمتی کہیے یا چین کی بدقسمتی کہ اسی دوران اس کے سامنے آسام میں اگنے والے ایک پودے کا معاملہ سامنے آیا۔

اس پودے کو ایک سکاٹش سیاح رابرٹ بروس نے 1823 میں دریافت کیا تھا۔

یہ مقامی پودا چائے سے ملتا جلتا آسام کے پہاڑی علاقوں میں جنگلی جھاڑی کی حیثیت سے اگتا تھا۔

لیکن زیادہ تر ماہرین کے مطابق اس سے بننے والا مشروب چائے سے کمتر تھا۔

فارچیون کے پودوں کی ناکامی کے بعد کمپنی نے اپنی توجہ آسام کے اس پودے پر مرکوز کر دی۔ فارچیون نے جب اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ چینی چائے کے پودے سے بےحد قریب ہے، بلکہ ان کی نسل ایک ہی ہے۔

آسام میں چائے کی پیداوار

چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے بہت زیادہ پسند کرنا شروع کر دیا۔

اور یوں کارپوریٹ دنیا کی تاریخ میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی سب سے بڑی چوری ناکام ہوتے ہوتے بھی کامیاب ہو گئی۔

دیسی چائے کی کامیابی کے بعد کمپنی نے آسام کا بڑا علاقہ اس ہندوستانی پودے کی کاشت کیلئے مختص کر کے اس کی تجارت کا آغاز کر دیا گیا اور ایک عشرے کے اندر یہاں کی پیداوار نے چین کو مقدار، معیار اور قیمت تینوں معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا۔

برآمد میں کمی ہونے کے باعث چین کے چائے کے باغات خشک ہونے لگے اور وہ ملک جو چائے کے لیے مشہور تھا، ایک کونے میں سمٹ کر رہ گیا۔

Leave a reply