خدارا!اینٹی بائیوٹکس ٹافیاں نہیں ہیں
تحریر: اعجازالحق عثمانی
آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔جس کے نتیجے میں اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس یعنی مزاحمت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 51 فی صد افراد اینٹی بائیوٹکس از خود استعمال کرتے ہیں۔ بغیر کسی ڈاکٹر کی تجویز کے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کس طرح ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے، اینٹی بائیوٹکس ادویات کیا ہوتی ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
اینٹی بائیوٹکس وہ دوائیں ہیں جو بیکٹیریا کی افزائش کو روکنے یا انہیں مکمل طور پر ختم کرنے یعنی مارنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا بے جا اور غیر ضروری استعمال آپ کےلیے سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس یا مزاحمت کیا ہے؟
اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس یا مزاحمت ایک ایسی کنڈیشن ہے کہ جس میں بیکٹیریا اپنی ساخت میں تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس ان تبدیل شدہ بیکٹیریا کی ساخت پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ تبدیل شدہ ساخت والے بیکٹیریا میں مزاحمت پیدا ہونے کے بعد بیکٹیریا پر اینٹی بائیوٹکس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس کے غلط استعمال کی وجوہات:
ڈاکٹری نسخے کے بغیر استعمال:
ہمارے ہاں اکثر لوگ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹکس استعمال کرتے ہیں۔ گھر میں کسی اور مریض کی پڑی ادویات یا (انھیں جس بھی اینٹی بائیوٹک دوائی کا نام یاد ہوتا ہے) بغیر کسی کوالیفائیڈ ڈاکٹر کی ہدایت کے خود میڈیکل سٹور سے خرید کر استعمال کرلیتے ہیں، یہ عمل صحت کے لیے نقصان دہ ہو ثابت ہو سکتا ہے۔
ادھورا علاج:
مریض اکثر دوائی کا کورس مکمل نہیں کرتے جس سے بیکٹیریا مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اور اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس یا مزاحمت پیدا ہو سکتی ہے۔
غلط تشخیص:
اتائی ڈاکٹر اور نان کوالیفائیڈ طبیبوں سے بچیں، ورنہ بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے کی وجہ سے آپ کا جسم اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس یا مزاحمت کا شکار ہو سکتا ہے۔
اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس یا مزاحمت کے نتائج:
پاکستان میں سالانہ 3 لاکھ افراد اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس رکھنے والے بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے انفکشنز سے براہ راست موت کا شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ 7 لاکھ کے قریب اسی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مگر حل کیا ہے؟:
ذمہ دارانہ استعمال:
اینٹی بائیوٹکس صرف ڈاکٹر کی ہدایت پر لیں۔ سلف میڈیکیشن سے گریز کریں۔
عوامی آگاہی:
اینٹی بائیوٹکس کے بے جا اور غلط استعمال کے نتائج اور نقصانات سے حکومتی سطح پر عوامی آگاہی مہم کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا چینلز کو بھی چاہیے کہ وقتاً فوقتاً آگاہی پروگرام نشر کیے جائیں۔
قانون سازی:
بغیر نسخے کے ہر قسم کی دوائیوں کی فروخت پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ اور خلاف ورزی پر سخت سزا اور جرمانے عائد کیے جانے چاہیے۔
"اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو” (القرآن)
اپنی جانوں پر ظلم نہ کیجیے ۔اور خدارا! اینٹی بائیوٹکس ٹافیاں نہیں ہیں۔ سو ان کو دوائی سمجھ کر ہی استعمال کیجیے۔ اینٹی بائیوٹکس بلاشبہ نعمت خداوندی ہیں ،احتیاط سے استعمال کریں،ان سے بیماری کو بھگائیں نہ کہ بڑھائیں۔