اونٹ بیل بکری اور گھاس کا گٹھا

0
47

کہتے ہیں ایک مرتبہ اونٹ بیل اور بکری مل کر جنگل میں سے گزر رہے تھے یکایک ان کی نظریں گھاس کے ایک گٹھے پر پڑیں جو سرراہ پڑا ہوا تھا گھاس کا گٹھا دیکھ کر تینوں چوپائے رک گئے اور طے کرنے لگے کہ۔ان کے تین حصے کر لیے جائیں تاکہ سب کھا سکیں بکری نے اس تجویز پر کہا: ساتھیو گھاس کا گٹھا ایک ہے اور کھانے والے ہم تین ہیں اگر اس کے حصے کیے گئے تو کسی کا بھی پیٹ نہ بھرے گا مناسب یہ ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو یہ گٹھا اسے کھانے کے لیے دے دیا جائے حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ بزرگوں کو مقدم رکھو لہذا اے ساتھیو ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی عمر بتائے اور جو سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہوگا وہ اس گھاس کا حقدار ٹھہرے گا اس کے سوا کوئی اور نہ کھائے گا اونٹ اور بیل نے بکری کی اس تجویز پر رضا مند ہوتے ہوئے کہا ٹھیک ہے سب سے پہلے تواپنی عمر بیان کر کہ کتنی ہے؟بکری نے کہا سنو ! حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں میری چراگاہ وہ جگہ تھی جہاں وہ حکم خداوندی کے بعد اپنے بیٹے اسمعیلؑ کو ذبح کرنے لائے تھے "سبحان اللہ” بیل نے کہا پھر تو میں۔عمر میں تم سے بڑا ہوں اس لیے کہ میں اس جوڑی کا ایک بیل ہوں جسے حضرت آدمؑ نے پہلی بار ہل چلانے کے لیے جوتا تھا اونٹ نے جب بیل۔اور بکری کی زبانی ان کی عمریں سنیں تو اپنی لمبی گردن آگے بڑھائی اور گھاس کا وہ گٹھا ہڑپ کرنے کے بعد بولا ساتھیو مجھے اپنا سن یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہقں مجھے یہ یاد ہے کہ میرا جسم اور گردن دونوں خاصے بڑے ہیں ( مولانا رومی)

Leave a reply