عورتوں کا عالمی دن یا عورت مارچ ،تحریر: حنا سرور

0
48

8 مارچ عورتوں کا عالمی دن جو پوری دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پہ منایا جاتا ہے
اس دن کا مقصد مظلوم عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھانا ہوتا ہے
لیکن میرے پاکستان میں 8 مارچ کو عورت مارچ کا نام دیا جاتا ہے
جہاں ایک طرف مدارس کی باپردہ عورتیں حجاب کے لیے سڑکوں پہ نکلتی ہے تو دوسری طرف کچھ کالجز اور یونیورسٹیز کی عورتیں اپنے مردوں سے آزادی لینے کے لیے سڑکوں پہ نکلتی ہے
ان کے نعرے بھی مختلف ہوتے ہیں
ایک طرف یہ
مجھے وراثت میں حق دو
میری پیدائش پر دکھی مت ہو
میں اللہ کی رحمت ہوں مجھے بوجھ مت سمجھو
مجھے تعلیم دو
میری عزت کرو
تو دوسری طرف نعرے ہوتے ہیں
لو بیٹھ گئ ایسے ۔۔۔
کھانا خود گرم کرو
نہی پہنوں گی پورے کپڑے
میں اپنی مرضی سے بچہ پیدا کروں گی
مجھے اپنے مردوں سے آزادی چاہیے
علی وزیر کو رہا کرو
منظور پشتین کو ریاست مخالف جلسوں کی آزادی دو
فوج بری ہے فوج یہ ہے فوج وہ ہے ۔بلوچستان دہشتگرد تنظمیں معصوم ہے ان کو کچھ نہ کہو
اس کے علاوہ اسلام کے خلاف توہین آمیز بینر ہوتے ہیں۔۔پچاس مرد تو بیس عورتیں ہوتی ہے مردوں کے گلے میں پٹا ڈال کر بظاہر مرد کو کتا کہتی ہے۔۔اور وہ مرد خود خوشی خوشی اپنی تذلیل برداشت کررہے ہوتے ہیں ۔پتہ ہے کیوں؟

کیونکہ یہ عورتیں ان کے ہی اشاروں پہ ناچ رہی ہوتی ہے
پاکستان کو عورتوں کے لیے دنیا بھر کی نظروں میں برا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے
2020 عورت مارچ پہ پابندی لگانے کے لیے عدالت میں درخواست بھی دی گئ تھی کہ عورت مارچ کے روپ میں یہ بیکار گروہ ہماری نوجوان نسل کا برین واش کررہا ہے
‏میرا جسم میری مرضی کے نعرے اور عورت مارچ کے پیچھے لادینیت اور الحاد کا ایجنڈا کارفرما ہے ورنہ اسلام نے تو عورت کو بہت ذیادہ حقوق دے رکھے ہیں.عورت ماں، بہن، بیٹی کے طور پر پاکستان میں بہت اچھا رول پلے کر رہی ہیں ہمیں کسی نئے حقوق، نعرے یا عورت مارچ کی ضرورت نہیں ہے
اس پر 6 مارچ 2020 جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا ‏عورت مارچ کے نعرے درست ہیں خواتین اسلام میں دیےگئےاپنے حقوق مانگ رہی ہیں اور جج صاحب نے عورت مارچ پہ پابندی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔۔

حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بیٹھے اعلی عہدوں کے لوگ خود اس ایجنڈے کو پرموٹ کررہے ہیں خواہ وہ شیریں مزاری ہو یا فواد چوہدری جیسا لبرل ۔جس نے ہمیشہ خود کو ایک خودساختہ مولانا بنایا ہوا ہے ۔کہ ہمیشہ جب اسلام پہ بات آتی ہے فواد صاحب جن کو شاید چھ کلمے بھی نہ آتے ہوں لیکن لبرل کہ روپ میں علماء والے کام بھی خود ہی کرنے لگ جاتے ہیں کہ جیسے ان صاحب کا ایک ہی کام ہے اور وہ علماوں اور لوگوں کے درمیان انتشار پھیلانے کا
ورنہ اکثر ایسے موضوع پر جن پر بولنا ہو موصوف ہمیشہ خاموش ہی رہتے ہیں اور خاموشی سے ایسے ایجنڈوں کو پرموٹ کرتے ہیں

اور سب سے اہم بات ۔جب ہمارے ٹی وی چینلز پر اخلاق سے گرئے ہوئے ڈرامے دیکھائے جائیں گے جب اک اسلامی ریاست کے نام پر بننے والے ملک میں عورت مارچ کے نام پر میرا جسم میری مرضی جیسے گھٹیا نعرے کے ساتھ ملکی شاہراوں پر سرعام بےحیائی پھیلای جاے گی تو پھر اس کا رزلٹ ایسے ہی یونیورسٹیز اور کالجوں نکلے گا۔
کبھی سوچا ہے آپ نے یہ کیسی عورتیں ہیں ، ان کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے ، یہ نعرے یہ سلوگنز کہاں پے ترتیب دیے جا رہے ہیں ، حکومتی مشینری کو فعال ہونے کی اشد ضرورت ہے ، ورنہ ! بڑی خوفناک صورتحال پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے ، ہر سال انکے ڈرامے بڑھتے جارہے ہیں ، پہلے یہ صرف (کھانا) گرم کرنے کی بات کرتی تھیں اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے

جب بھی عورت مارچ پہ پابندی کی بات ہوتی ہے عورت مارچ کے منتظمین ہمیشہ یہ ضمانت دیتے ہیں کہ غیر اخلاقی سلوگنز اور پلے کارڈز نہیں ہوں گے اور پھر تحریر شدہ بیہودہ اور انتہائی غلیظ نعروں والے بینر پکڑے ہوتے ہیں جو انہوں نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ سے ٹویٹ بھی کیے ہوتے ہیں سعودیہ میں ڈانس کلب کھلے ہوں تو آپ میں یہاں بیٹھے غیرت جاگنے لگتی ہے اور آپ سعودیہ کے خلاف ہیش ٹیگ چلاتے ہیں گستاخ سعودیہ ۔ترکی میں کچھ ایسا ہو تو آپ دین اسلام کہ ٹھیکدار بن کر ترکی خلاف ٹرینڈ چلاتے ہیں گستاخ ترکی اور خود نیک اچھے مسلمام بن جاتے ہو ۔

لیکن آپ کے اپنے ملک میں پچھلے چند سالوں میں ہر سال یہ ہوتا ہے ۔اور دنیا بھر کا میڈیا اسے کوریج کرتا ہے اور آپ خاموش تماشائی بنے ہوتے ہو ۔

کیا ہماری عدالت ان پر ایکشن لے گی۔یا یوں ہی فحاشی کی ذمہ دار بنتی رہیں گی.
ایک بار پھر دینی حلقوں علماء و اکابرین سے درخواست ہے کہ آپسی رنجشیں اور فرقہ پرستی سے نکلیں اور یک جان ہو کر خدارہ ایسے فتنوں کی سر کوبی کریں۔
حنا سرور

Leave a reply