تمباکو نوشی…. صرف ایک انفرادی عادت نہیں بلکہ ایک المیہ بن چکی ہے، جو نہ صرف انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ ملکی معیشت، ماحول اور نوجوان نسل کے مستقبل کو بھی تاریک کر رہی ہے۔ اس تناظر میں غیر سرکاری تنظیم کرومیٹک ٹرسٹ اور باغی ٹی وی کی جانب سے تمباکو نوشی کے خلاف شروع کی جانے والی مہم قابل تحسین اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔تمباکو نوشی کے نقصانات پر اگر غور کیا جائے تو فہرست بہت طویل ہے۔ یہ عادت پھیپھڑوں کے سرطان، دل کی بیماریوں، اور سانس کی تکالیف کا باعث بنتی ہے۔بچوں، خواتین اور بزرگوں کو بھی بالواسطہ متاثر کرتی ہے۔معاشی بوجھ میں اضافے کا سبب بنتی ہے، کیونکہ علاج مہنگا اور دیر پا ہوتا ہے۔
اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر تمباکو پر ٹیکس بڑھایا گیا تو غریب آدمی سگریٹ نہیں خرید سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی مقصد ہونا چاہیے، اگر سگریٹ اتنی مہنگی ہو جائے کہ غریب کی پہنچ سے دور ہو جائے تو وہ شخص شاید انہی پیسوں سے بچوں کے لیے پھل لے آئے، جو ان کی صحت کے لیے مفید ہوں گے۔ یہ نہ صرف مالی فائدہ ہوگا بلکہ ایک نسل کو تباہی سے بچانے کی کوشش بھی ہوگی۔آج کا نوجوان تمباکو نوشی کو "فیشن” اور "سٹائل” سمجھتا ہے، مگر حقیقت میں وہ ایک زہر کو اپنے جسم میں اتار رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو آنے والے وقت میں نشے کی دوسری اقسام، جیسے چرس، آئس، اور ہیروئن تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔
اگرچہ حکومت نے تمباکو نوشی پر مختلف پابندیاں لگا رکھی ہیں، مثلاً عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر جرمانہ، اشتہارات پر پابندی، اور سگریٹ پیک پر وارننگ، لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی تعلیمی ادارے، مسجد یا ہسپتال کے باہر کھڑے افراد کو تمباکو نوشی سے روکا گیا ہو؟یہی وہ خلا ہے جسے پُر کرنے کے لیے معاشرے کو متحرک ہونا پڑے گا۔ہمیں اپنی مہم کا آغاز ان اداروں سے کرنا ہوگا جہاں سے اصلاح ممکن ہو،تعلیمی ادارے جہاں بچوں کو بچپن سے ہی تمباکو نوشی کے نقصانات سے آگاہی دی جائے۔مساجد جہاں علما خطبوں میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔میڈیا، تمباکو مخالف اشتہارات اور کہانیاں عام کی جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تمباکو مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرے تاکہ ان کی دستیابی کم ہو،تمباکو سے حاصل ہونے والی آمدن کو صحت و تعلیم کے شعبوں میں استعمال کرے،ایک مؤثر مانیٹرنگ سسٹم بنائے تاکہ قوانین پر سختی سے عمل کروایا جا سکے۔
صحت مند پاکستان صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک خواب ہے، جس کی تعبیر تب ہی ممکن ہے جب ہم اجتماعی سطح پر تمباکو نوشی کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں، بچوں، بزرگوں اور آنے والی نسلوں کو تمباکو کی لعنت سے بچانا ہوگا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ایک بیمار، آلودہ اور نشہ زدہ قوم بننا چاہتے ہیں یا ایک باہمت، صحت مند اور روشن خیال قوم، جو آنے والے وقت میں دنیا کے سامنے ایک مثال بن سکے۔آئیں، تمباکو کے خلاف آواز اٹھائیں، اور اپنے کل کو بچائیں۔