اقربا کریں کس پر میرے خون کا دعویٰ ازقلم: نادیہ بٹ

0
32

اقربا کریں کس پر میرے خون کا دعویٰ

ازقلم: نادیہ بٹ
عدلیہ کے متعلق قطعی رائے تو یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لیے انتظامیہ کے دباؤ اور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہیے تھا بلکہ قاضی کو اس قابل آزاد ہونا چاہیے تھا کے خود امیر بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ آذادی سے کر سکتا

دس سال قبل دو نوجوانوں مغیث اور مُنیب کو سیالکوٹ میں سرعام انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا ملزمان جنہوں نے دن دہاڑے بھری بھیڑ میں دو نوجوانوں کو انتہائی بے دردی سے ڈنڈوں سوٹوں کے وار سے ہلاک کر دیا تھا اب عدالت نے ان سب کو رہا کر دیا افسوس صد افسوس
انصاف تبھی ممکن تھا جب کوئی منصف یا حکمران خوش پوشی اور تعیش کے حصول سے مبرا ہوتا لیکن حد سے بڑھ کر عیش کرنے والے منصف یا حکمران انصاف برقرار نہیں رکھ سکتے ۔کیونکہ عیش ایک ایسی لذت ہے جس سے دن بدن افزائش ہی پیدا ہوتی ہے ۔

انسانی جان کی قدر و قیمت اللہ نے قرآن میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
(ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ آلا بالحق) "ایسی جان کو مت قتل کرو جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حرام قرار دیا ہے ہاں مگر حق کے ساتھ قتل کیا جا سکتا ہے”سورة. (الانعام١٥١)

ہم دیکھتے ہیں کہ عدالتوں سے سزا پانے والوں میں غریب لوگوں کی اکثریت ہے جبکہ پولیس کے ریکارڈ میں بھی حراست میں غریب اور متوسط طبقوں کا تعلق ہوتا ہے جبکہ بھگڑے ہوئے امیر زادوں کو بے قصور اور معصوم قرار دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے انصاف کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں ۔جس انصاف کے بارے میں سختی سے حکم دیا گیا تھا……!

(وانا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل)
"اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں تو انصاف کا فیصلہ کرو۔”

عدل ہی اسلامی عدالت کا قانون کلی ہے ۔۔۔۔
میدان عدل کے دونوں پلے برابر ہونے چاہیں ۔ہر عدالت کا فرض ہے کہ اس کا خیال رکھے مگر افسوس!! !مفلس اور غریب لوگ مقتول کے انصاف کی دھائی دیتے ہوئے اور آخرت کے دن ہونے والے انصاف پر امید رکھتے ہوئے چپ کر جاتے ہیں۔ یا کروا دیں جاتے ہیں۔
انصاف کی اعلی و عمدہ مثال عہد نبوی ﷺ میں ہم دیکھتے ہیں،،،،،
جب ایک اونچے خاندان کی عورت نے چوری کا ارتکاب کیا کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ اگر اس کو سزا ہو گئی تو جگ ہنسائی ہو گی۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو آمادہ کیا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس جا کر عورت کو چھوڑنے کی سفارش کریں ۔جب اسامہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی خدمت میں ا گئے اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی کوشش کے لیے لب کشائی کی تو رسول ﷺ نے
ارشاد فرمایا:

"تم سے پہلے والے اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ سزا نیچ لوگوں کو دیتے تھے اور بڑوں کو چھوڑ دیتے تھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔”

معاشرے سے جرائم کے تدارک کیلئے چند گذارشات پیش !!!

چونکہ پاکستان اسلامی تعلیمات کے نفاذ فروغ کے لیے حاصل کیا گیا تھا اور اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے قوانین مذہبی تعلقات سے ہم آہنگ ہوں اس سے سماجی انحراف اور جرم و مصیبت کا دروازہ بند ہو سکتا ہے ہمیں مذہبی اور قانونی تعلیمات کو بھی کافی رواج دینا ہو گا اور زندگی میں دین اور دنیا کی جو تقسیم پیدا ہو گی ہے اسے ختم کرنا ہو گا

بقول اقبال رحمتہ اللہ:
جمال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سزا کا مقصد انسداد جرائم ہے تاکہ معاشرے میں امن وامان قائم ہو اس کا دوسرا مقصد مجرم کو فعل کے بدل فراہم کرنا ہے
سنگین سزا سے دوسرے لوگ بھی عبرت حاصل کرتے ہیں۔سزا خواہ سنگین ہو یا کم اگر اس سے مجرم کو جرم سے باز نہ رکھا جا سکے یا اس کی اصلاح نہ کی جائے تو اس سے اس کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔

سزا کے موثر بنانے اور بہتر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ ہم جس فعل سے کسی کو باز رکھنا چاہیں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو فوراً ہی سزا دی جائے اور طویل قانونی بحثوں سے احتراز کریں ۔۔

مجرموں کو ان کی مذموم سرگرمیوں کی واقعی سزا ملنی چاہیے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ جرم کے مرتکب نہ ہوں ۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کے درجات بلند فرمائیں اور آخرت کے دن مجرمین کو ان کے کیفرِ کردار تک پہنچائے اور مقتولین کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔۔
اور ہمارے عدالتی و قانونی نظام کو اسلامی قانون کے مطابق نافذ کرکے انصاف کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔آمین یارب العالمین
تم ہی قاتل تم ہی مخبر تم ہی منصف
اقربا کریں کس پر میرے خون کا دعویٰ

Leave a reply