آرٹیکل تریسٹھ اے اہم ایشو،رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں،چیف جسٹس

0
37
supreme court

آرٹیکل تریسٹھ اے اہم ایشو،رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں،چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ اٹارنی جنرل کو لاہور میں تاخیر ہوگئی ہے ،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف لاہور سے اسلام آباد روانہ ہوچکے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کس ٹرانسپورٹ پر اسلام آباد آرہے ہیں؟ عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل موٹروے سے اسلام آباد آرہے ہیں، 3 بجے تک پہنچ جائیں گے پنجاب کی معاملات کی وجہ سے اٹارنی جنرل لاہور میں مصروف ہوگئے تھے،بابر اعوان نے کہا کہ اٹارنی جنرل آرہے ہیں یا جارہے ہیں یہ سنتے دو ہفتے ہوگئے ہیں،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کام نہ کریں جس سے کوئی اور تاثر ملے ،اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کرنے کی بات خود کی تھی،مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل کیلئے پابند کیا تھا،ابھی ہمیں اطلاع ہوئی ہے کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سے واپس نہیں آئے،یہ دونوں وکلا ایک فریق کے وکیل ہیں ایک سرکار دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں،اب لگتا ہے اپ اس معاملہ میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں، ساڑھے گیارہ بجے دیگر مقدمات قربان کر کے کیس مقرر کیا، آرٹیکل تریسٹھ اے کا فیصلہ دینا چاہتے ہیں، اہم ایشو ہے، اگر اٹارنی جنرل 3بجے پہنچ رہے ہیں تو 4 بجے تک سن لیتے ہیں، رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں یہ خدمت کا کام ہے ہم کرنا چاہتے ہیں عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے،

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت تو 24 گھنٹے دستیاب ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کو 3 بجے سن لیں گے،اب لگتا ہے آپ اس معاملہ میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں،معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ مخدوم علی خان 17مئی کو آپس آجائیں گے مخدوم علی خان بیرون ملک مقدمہ میں دلائل دے رہے ہیں اٹھارہ مئی کے بعد ہوسکتا ہے بینچ دستیاب نہ ہو،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ پورا ہفتہ دستیاب ہےمعذرت کے ساتھ مخدوم علی خان نے مایوس کیا ہے،مخدوم علی خان بڑے وکیل ہیں،تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں

علیم خان کے وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی ارکان کو ہدایات جاری کرتی ہے،پارلیمانی پارٹی اور چیئرمین میں واضح فرق ہے،ممبر ناصر درانی نے کہا کہ کیا پارلیمانی پارٹی کا لیڈر بھی پالیسی جاری کرسکتا ہے.، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پارٹی چیئرمین ہدایات جاری نہیں کرسکتا ارکان پنجاب اسمبلی کو پارلیمانی پارٹی کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں دی گئیں16اپریل کو علیم خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، 4اپریل کے نوٹیفکیشن کی بنیاد پر پورا کیس بنایا گیا ہے،پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا ریفرنس میں کہیں زکر نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے ووٹنگ شام 7 بجے تک جاری رہی،

وکیل مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں تمام طریقہ کار موجود ہے،اگر طریقہ کار موجود نہ ہوتا تو عدالت آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کی طرف دیکھ سکتی تھی یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کے لیے ہو،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے، انحراف خالصتاً سیاسی اختلافات پر بھی ہوسکتا ہے،آرٹیکل تریسٹھ اے میں ڈی سیٹ کی سزا فراہم کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں منحرف ارکان کیلئے ڈی سیٹ کی سزا کافی ہے، مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے،ڈی سیٹ کے ساتھ مزید سزا شامل کرنے سے سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا،عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے ارکان سے متعلق ریفرنس مسترد کر چکا ہے،وکیل نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے آدھے ارکان نے ایک طرف آدھے نے دوسری طرف ووٹ دیا،اس سیاسی جماعت نے اپنے ارکان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا،آرٹیکل تریسٹھ اے پالیسی کا پابند کرتا ہے، انحراف سے منع کرتا ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی رکن اسمبلی کے آخری چھ ماہ میں انحراف کرتا ہے،ایسی صورتحال میں اس رکن کی سزا تو نہ ہوئی،وکیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ بھی منحرف ارکان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے، عدالت پارٹی سربراہوں کے کنڈیکٹ کو بھی سامنے رکھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہے،ہمارے کندھے آئین پاکستان ہے،تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے، دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے منحرف رکن اپنے پارٹی سربراہ کو اپنے اقدام پر راضی کر لے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوریت کا فروغ کیسے ہو گا ہر رکن اپنی مرضی کرے گا، کسی فرد پر فوکس کرنے کی بجائے سسٹم پر فوکس کیوں نہ کیا جائے، آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے،کیا 10پندرہ ارکان سارے سسٹم کو تبدیل کرسکتے ہیں؟کیا چند افراد سسٹم کو ڈی ریل کر سکتے ہیں؟ وکیل مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن بڑی اہم ہے،آرٹیکل 95 کے تحت ارکان کا حق ہے وہ مرضی سے ووٹ دیں،کسی منحرف رکن کا دفاع نہیں کروں گا،آرٹیکل تریسٹھ اے کی سزا بڑھانے سے جمہوریت کو فروغ ملے گا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اسطرح سے سیاسی پارٹی ٹی پارٹی بن جائے گی، ہم بحث سے ایک بات سمجھے ہیں کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کرسکتا ہے،کیا سربراہ پارٹی کے ساتھ ہوئے غلط اقدام کو معاف کرسکتا ہے؟ اگر پارٹی سربراہ رکن کے غلط کام کو معاف کردیں تو یہ آئین کے خلاف ہو گا؟کیا پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی کوئی اہمیت نہیں

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پارٹی سربراہ بھی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتا ہے،اگر اختلاف پر ارکان استعفیٰ دے دیں تو سسٹم تباہ نہیں ہو گا،جسٹس جمال خان نے کہا کہ ارکان کے انحراف سے سسٹم ختم نہیں ہوتا،وکیل مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے ایک مکمل کوڈ ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سماعت کل تک ملتوی کردیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ امید کرتے ہیں مخدوم علی خان کل پیش ہوں گے،اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو تحریری دلائل سے دیں،کل صدارتی ریفرنس کی کارروائی کو مکمل کرنا چاہتے ہیں،

ایک ہزار سے زائد خواتین، ایک سال میں چار چار بار حاملہ، خبر نے تہلکہ مچا دیا

ایک برس میں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے کس ملک میں خودکشی کی؟

فرار ہونیوالے ملزمان میں سے کتنے ابھی تک گرفتار نہ ہو سکے؟

طالب علم سے زیادتی کر کے ویڈیو بنانیوالے ملزم گرفتار

ملازمت کے نام پر لڑکیوں کی بنائی گئیں نازیبا ویڈیوز،ایک اور شرمناک سیکنڈل سامنے آ گیا

200 سے زائد نازیبا ویڈیو کیس میں اہم پیشرفت

شادی کے جھانسے میں آ کر تعلق قائم کر لیا، اب بلیک میل کیا جا رہا،سٹیج اداکارہ

Leave a reply