آرزو اغوا یا قبول اسلام معمہ الجھ گیا لاہور احتجاج میں کر دی بڑی ڈیمانڈ

0
30

کراچی میں 13 سالہ کر سچین بچی کے اسلام قبول کرنے کے بعد 44 سالہ شخص سے نکاح کرنے پر لاہور پریس کلب کے باہر طُلباء تنظیموں کا احتجاج کہا کہ 13 سالہ مسیحی بچی آرزو راجہ کو انصاف دو کم عمر شادی اور جبری مذہب تبدیلی نامنظور ہے-

باغی ٹی وی: حال ہی میں کراچی میں ایک 13 سالہ بچی نے اسلام قبول کیا اور اس کا نکاح ایک 44 سالہ شخص سے کر دیا گیا جس پر چند طُلباء تنظیموں نے لاہور پرید کلب کے سامنے احتجاج کیا-


ایک مسلم 33 سالہ خاتون نے باغی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک 13 سالہ بچی کے پاس اتنی عقل نہیں ہوتی کہ پہلے 44 سالہ شکص کو قبول کرے اور پھر ایک ایسی سچویشن بنائیں جس سے وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے-

باغی ٹی وی کے اینکر نے خاتون سے سوال کیا کہ بہت سے ایسے بچے ہیں جنہوں نے کم عمر میں پاکستان کا نام روشن کیا اور سوفٹ وئیرز بنائے جیسے کہ ارفعہ کریم تو آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ 13 سالہ بچی فیصلہ نہیں لے سکتی-

جس پر خاتون نے کہا کہ فیصلے کی بات نہیں مذہب تبدیل کرنا ایک بہت بڑا زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے جس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ میں 33 سال کی ہوں لیکن میں 10 بجے کے بعد باہر نہیں نکل لیکن یہاں پر ایک 13 سال کی بچی جس کو ایک 44 سالہ مرد نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور اپنی مرضی سے اسلام قبول کروایا پاکستان میں جہاں اس معاملے میں اس حد تک جا سکتے ہیں کہ جہاں اس کے لئے قتل تک کئے جاتے ہیںتو آپ کو لگتا ہے کہ یہاں پر ایسا ماحول ہے جس میں اس نے اپنی مرضی سے مزہب تبدیل کیا ہو گا-

آرزو راجہ نے ٹوئٹر پر بیان دیا تھا کہ اس کے گھر والے اسے تنگ کر رہے ہیں اس کے دیور کو اٹھا کر لے گئے ہیں جہاں اس کی شادی ہوئی اسے سکون سے رہنے نہیں دیا جا رہا بچی کے اس بیان کے بارے میں احتجاج میں شریک ایک شہری نے کہا کہ اس بیان کی کوئی لیگل ویلیو نہیں ہے کیونکہ وہ صرف 13 سال کی ہے ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ بیان تو بدل نہیں سکتے 13 سالہ بچے کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں مل سکتا ووٹ نہیں ڈال سکتا تو اپ یہ کیسے یہ اسے حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی شادی کا فیصلہ خود کر لے-

شہری نے کہا کہ ہمیں اس کے مذہب تبدیل کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں یہ اس کا اس کے خدا کے ساتھ معاملہ ہے وہ بچپن میں بھی مذہب تبدیل کر سکتی ہے اور 90 سال کی عمر میں بھی تبدیل کر سکتی ہے یہ اس کا ذاتی معامہ ہے مذہب مسئلہ نہیں یہاں احتاجا میں بھی مسلم ، سکھ ، کرسچن ، کیتھولک ہر مذہب کے لوگ آئے ہیں وہ ایک چھوٹی بچی ہے اور چھوٹی بچی کیسے 44 سالہ مرد کے ساتھ رہ سکتی ہے-

لوگوں نے باغی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں ایک قانون بن چُکا ہے کہ 18 سال سے کم بچہ ایسے شادی جیسے کریٹیکل فیصلے اناؤنس نہیں کر سکتا تھا تو پھر ان اصولوں پر عمل کیوں نہیں کیا جا تا انہوں نے کہا کہ مسئلہ مذہب کا نہیں اس سے پہلے زینب کا کیس سامنے آیا وہ مسلم بچی تھی حال ہیں ملک میں ریپ کیسز میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے معاشرے میں ا ن چیزوں کو ختم کرنا چاہئے کل آرزو تھی تو آگے ہماری کوئی بہن بیٹی ہو سکتی ہے-

احتجاج میں شریک ہونے والوں نے کہا کہ یہاں مسئلہ ہندو مسلم سکھ اور عیسائی کمیونٹی کا نہیں انسانیت کا ہے ہم یہاں انسانیت کے ناطے شریک ہوئے ہیں اور پاکستان آرمی سے درخواست کرتے ہیں کہ جو اس پر قانون پاس ہوا ہے اس پر عمل کروایا جائے-

Leave a reply