اصلاح معاشرہ اور ہم :علی چاند

0
30

ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ اور ہم سب مسلمان ہیں ۔ حج کرنے ، عمرہ کرنے ، خیرات دینے میں پاکستانیوں کا دنیا میں اور کوٸی ثانی نہیں اور الحَمْدُ ِلله ہمیں اس بات پر فخر ہے ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر انسان پریشانیوں ، دکھوں ، اور تکیلفوں میں کیوں گھرا ہوا ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک اللہ کو ماننے والے ، سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ پاک کو ماننے والے ، حاجت روا صرف ایک اللہ کو ماننے والے ، ہم لوگ آخر بے چینیوں اور تکلیفوں کا شکار ہیں کیوں ؟

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاٸیں اور اپنی معاشرتی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اپنے اردگرد جھوٹ ، بددیانتی ، بد لحاظی ، منافقت ، نفرت ، فساد ، رشتوں سے الجھاٶ ہر جگہ کثرت سے نظر آٸے گا ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اسلام کو ماننے والے ، ایک اللہ کو قادر مطلق سمجھنے والے ، خود کو مسلمان کہنے والے اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جارہے ہیں کہ ہم جھوٹ بولنا حق سمجھتے ہیں ،ڈاکہ زنی لوٹ مار ، کسی مسلمان کا حق کھانا ، ناپ تول میں کمی کرنا ، والدین کی گستاخی کرنا ، کسی مسلمان کی چغلی اور غیبت کرنا ، کسی بھولے بھالے مسلمان پر بہتان لگانا ، الزام تراشی کرنا معیوب نہیں سمجھتے ؟ حالانکہ ہمیں ہمارا اسلام ان سب باتوں سے سختی سے منع کرتا ہے ۔ اسلام میں چغل خور کو شیطان کا بھاٸی کہا گیا ہے تو کہیں غیبت کو اپنے مردہ بھاٸی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔ کہیں دکھاوے کی مذمت کی گٸی ہے تو کہیں مسلمان کا راز فاش کرنے والے کو یہ کہا جارہا ہے کہ اگر وہ مسلمان کے کسی راز کو فاش کرے گا تو اللہ بھی اسے ذلیل و رسوا کر دے گا ، کہیں فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے تو کہیں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے واقعات بتا کر عبرت حاصل کرنے کی تنبیہ کی گٸی ہے ۔ کہیں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھی گٸی ہے تو کہیں زنا اور شراب پر حد مقرر کی گٸی ہے ۔ اور بات مختصرا یہ کہہ دی گٸی ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا ۔ قصور وار کون ؟ کیا ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی اصل وجہ ہم خود تو نہیں ؟ کیا ہم صرف نام کے مسلمان تو نہیں ؟ کیا ہم نے اسلام کا صرف نام سنا ہے یا اسلام کو پڑھا بھی ہے کہ اسلام کہتا کیا ہے ؟ اگر ہم ان چند سوالوں پر غور کریں توبات سامنے یہ آتی ہے کہ ہم صرف پیداٸشی مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کا صرف نام ہی سن رکھا ہے ۔ اگر ہم نے اسلام پڑھا ہوتا تو ہمیں پتہ ہوتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ اور اللہ نے ہمیں چغلی ، غیبت ، بے حیاٸی ، شراب جوٸے ،چوری ، جھوٹ ، بہتان سے نا صرف منع کیا ہے بلکہ اس پر سخت وعیدیں بھی آٸی ہیں ۔ ہم لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ہمارے کیا حقوق ہیں لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہمارے فراٸض کیا ہیں ۔ والدین اولاد کا حق دینے کو تیار نہیں تو اولاد والدین کو بوجھ سمجھ رہی ہے ، سسرالی رشتوں کے ساتھ جو ہمارا رویہ ہوتا ہے وہ تو اللہ کی پناہ ۔ ساس یہ تو چاہتی ہے کہ بہو بیٹی بنے لیکن خود بہو کو بیٹی سمجنے کو تیار نہیں ۔ اسی طرح بہو یہ تو چاہتی ہے کہ ساس سسر اپنی بیٹی سے زیادہ بہو کا خیال رکھیں لیکن بہو خود اپنے ساس سسر کو والدین کا درجہ دینے کو تیار نہیں ، عورتیں صرف اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے دلوں میں ان کی دادی ، پھوپھو ، چچا جیسے مقدس رشتوں کے لیے نفرت ڈال رہی ہیں جبکہ مرد اپنے بچوں کے سامنے اپنے بچوں کی امی ، اس کے والدین اور بہن بھاٸیوں کو برا بھلا کہتے ہیں جس کی وجہ سے اولاد کے دل میں ماں کے مقدس رشتوں کے لیے بغض اور نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ اس طرح جب مرد اور عورت اپنے بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے لڑاٸی جھگڑا کرتے ہیں تو بچے بھی والدین کی عزت و احترام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ جب والدین بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں تو بچے بھی ایسی ہی تربیت پاتے ہیں ۔ ہم اپنی خود غرضی اور لالچ کی بنا پر اپنے خون پسینے کی کماٸی کو جھوٹی قسم اٹھا کر ، ناپ تول میں کمی کر کے ، اپنے ڈیوٹی کے گھنٹوں میں کمی بیشی کر کے حلال سے حرام میں بدل دیتے ہیں ۔ اور جب ہمارا کھاناپینا حرام ہوجاتے ہیں تو پھر ہمارے گھروں میں نااتفاقی ، ناچاکی اور نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔ بیوی کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ جس ساس کے خلاف وہ اپنے شوہر کے کان بھر رہی ہے وہ اس کے شوہر کی جنت ہے ایسی عورتیں اپنے ہم سفر اپنے مزاجی خدا کی جنت خود اپنے ہاتھوں برباد کر رہی ہوتی ہیں ۔ استاد اپنے فراٸض بھول کر بس اپنی تنخواہ کے چکروں میں پڑ چکے ہیں جس کی وجہ سے آج کے طالب علم کے پاس علم کا تو ذخیرہ ہوگا لیکن وہ تربیت سے بالکل خالی ہوگا ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا و آخرت میں اعلی مقام حاصل کر سکیں ۔ اپنے غموں اور پریشانیوں کا خاتمہ کر سکیںتو ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کا مطالعہ کر کے سچے پکے مسلمان بنیں اور پھر اسلام کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کریں ۔ ہماری مشکلات کا حل صرف اور صرف اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی ممکن ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے پہلے اسلامی تعلیمات کو جاننا ضروری ہے ۔ اللہ پاک ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اسلام کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرماٸے ۔
آمین

Leave a reply