اٹل بہاری واجپائی ،شاعربھی وزیراعظم بھی،ادبی شخصیت

0
41

جنگ نہ ہونے دیں گے
ہم جنگ نہ ہونے دیں گے

اٹل بہاری واجپائی

پیدائش:25 دسمبر 1924ء
آگرہ
وفات:16 اگست 2018ء
آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس، نئی دہلی
وجۂ وفات:ذیابیطس
طرز وفات:طبعی موت
شہریت:انڈین، برطانوی ہند
جماعت:بھارتیہ جنتا پارٹی (1980-2018)
جن سنگھ
مادر علمی:چھاتراپتی شاہو جی مہاراج
پیشہ:سیاست داں، شاعر، صحافی
اعزازات:
بھارت رتن (2015)
نمایاں ماہرِ پارلیمانی امور اعزاز (1994)
بنگا بیبھوشن (1994)
پدم وبھوشن
وزیر خارجہ بھارت
1977 – 1979
وزیر اعظم ہند
16 مئی 1996 – 1 جون 1996
19 مارچ 1998 – 19 مئی 2004

ایک تھے اٹل بہاری واجپئی
۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدہ مہرافشاں
۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد ہند کی ایک قدآورسیاسی شخصیت، سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی ایک مدت صاحبِ فراش رہنے کے بعد آزادی کی 71ویں سالگرہ پر زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے۔یہ ان کے جسم کی موت ہوئی۔ ورنہ پارٹی نے تو 2009 کے پارلیمانی چناؤ میں شکست کے بعد ہی ان کوکنارے کردیا تھا اورلوہ پرش کوآگے بڑھادیا تھا۔اس دوران بیشک جسم و جان کی دیکھ بھال تو ہوئی مگران کی سوچ اورطورطریقوں کی پامالی ہی پامالی ہوئی۔ تھے تو وہ بھی سنگھی مگران میں جووضعداری اورسیاسی دوراندیشی تھی، اس کی جھلک بھی موجودہ میں نظر نہیں آتی۔ البتہ ان کی شخصیت کو بھنانے کیلئے ان کے استھی کلش اٹھائے گھوم رہے ہیں۔

چندسال کے علاوہ اٹل جی کی سیاسی زندگی اپوزیشن میں گزری۔ مگر جواہر لعل نہروسے لے کرڈاکٹرمن موہن سنگھ تک سب نے ان کو مان سمان دیا۔ جب ان کی پارٹی سمٹ کر دوممبران تک رہ گئی تھی تب بھی ان کی بے قدری نہیں ہوئی، جیسا اب اپوزیشن کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس لئے سنگھی ہونے کے باوجود باجپئی جی مختلف تھے۔وہ کسی بڑے گھرانے سے نہیںآئے تھے، مگر کبھی پریوار کے پس منظرکو ووٹوں کیلئے بھنایا نہیں۔ہمیشہ سادہ زندگی گزاری ۔ چاہتے تو برانڈڈ کپڑے وہ بھی پہن سکتے تھے اورروز ودیش جاسکتے تھے۔

ہم نے ان کی خوش مزاجی کے قصے سنے ہیں۔ وہ جب تقریر کرتے توتنقید کا کوئی پہلو چھوڑتے نہیں تھے، مگرکسی پر ذاتی حملہ ان زبان پر کبھی نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سیاسی نظریہ کے مخالف بھی ان کااحترام کرتے ۔ ان کے ہر لفظ، ہر جملے کی داد دیتے تھے۔وہ سیاسی فائدے کیلئے نہ جھوٹ کا سہارالیتے اورنہ سبزباغ دکھاتے۔ ان کی متانت اورسوجھ بوجھ نے ان کو مقبول عام لیڈربنادیا تھا۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے ان کو دنیا خراج عقیدت پیش کررہی ہے۔

اٹل جی 1924میں گوالیار میں ایک برہمن گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ’’سرسوتی ششومندر، گوالیار‘‘ سے ہوئی۔انگریزی، ہندی اورسنسکرت میں ڈسٹنکشن کے ساتھ بی اے کیا اورسیاسیات میں فرسٹ ڈویزن میں ایم اے کیا۔ برہمن ہونے کے باوجود و ہ آریہ سماج سے جڑے اورعہدیدار بنے۔ 16سال کی عمرمیں آرایس ایس سے وابستہ ہوگئے ۔ اس کے کارکن (سیوم سیوک) اورمبلغ (پرچارک )رہے۔اسی لئے ان کا نام جہاد آزادی میں نہیں آتا کہ آرایس ایس اس میں حصہ دارنہیں تھی۔ہندستان چھوڑوتحریک کے دوران وہ اپنے گاؤں بٹیشورمیں گرفتارہوگئے مگرجلد ہی معذرت پیش کرکے چھوٹ گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کے ہندی ماہنامہ ’’راشٹردھرم‘‘ سے صحافت شروع کی۔ کئی دوسرے اخباروں میں بھی کام کیا اورجب آزادی کے بعد آرایس ایس کے سیاسی بازوکے طور پر ڈاکٹرمکھرجی نے بھارتیہ جن سنگھ بنائی تواس کے بانی ممبروں میں شامل ہوگئے ۔ یہی جن سنگھ بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی بنی۔ مرتے دم تک ان کا یہ رشتہ قائم رہا۔ وہ کوئی چالیس سال پارلیمنٹ کے ممبررہے۔ لوک سبھا کے دس چناؤ جیتے اوردوبارراجیہ سبھا میں گئے۔مرارجی دیسائی کی جنتادل سرکار میں وزیرخارجہ بنے تو چین کے ساتھ رشتوں کی نئی بنیاد ڈالی۔ بحیثیت وزیراعظم انہوں نے پاکستان سے تعلقات بہترکرنے اورکشمیر مسئلہ کو حل کرنے کی جو جرأتمندانہ کوششیں کیں ان کی دوسری مثال نہیں ۔ ان کے نظریہ سے اختلاف کے باوجودان کی ان خدمات کا اعتراف ہونا چاہئے اوربھاجپاکی موجودہ قیادت کویاددلانا چاہئے کہ ’راج دھرم ‘ پرکاربندرہنے کی انکی نصیحت پر کان دھرے۔صرف استھی کلش لئے پھرناکوئی معنی نہیں رکھتا۔

بیشک انہوں نے پوری لگن سے آرایس ایس کیلئے کام کیا۔ان کاکہنا تھا کہ مرتے دم تک سنگھ کا سیوم سیوک رہوں گا۔سنگھ کا مقصد ہے بھارت کو خالص ہندو راشٹربنانا۔مگرموجودہ سرکار ہندستان کی گنگاجمنی تہذیب اور آپسی بھائی چارہ کو ملیا میٹ کرکے جس طرح کاراشٹربنانا چاہتی ہے،جس میں انسانی جانوں اور قانون کی پامالیوں کی پرواہ نہیں، اٹل جی ہوتے توایسا چاہتے۔اگروہ ایسا چاہتے ہوتے توپاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھاتے۔ جس کیلئے وہ خود لاہورگئے۔ لاہوردہلی بس سروس ان کی ہی دین ہے۔ انہوں نے کشمیری عوام میں اعتماد کی روح پھونکی۔ گجرات 2002کے فساد پر انہوں نے کہا تھا’ہم ودیشوں میں کیا منھ دکھائیں گے۔‘ان کا یہ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کیلئے ایک امن پسند ہندستان کو سب سے زیادہ ترجیح حاصل تھی۔

بزرگ صحافی جناب حفیظ نعمانی نے لکھا ہے، ’’اٹل جی اگرآرایس ایس کی گرفت میں نہ ہوتے تو پنڈت نہروجیسے قدآورسیکولر ہوتے۔‘اور یہ کہ ’2004میں انہوں نے مسلمانوں کو آواز دی،لیکن موقع پرستوں کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔ کیونکہ بات اصل بھاجپا کی تھی، وہ اگراپنے ان آقاؤں کوچھوڑ کر آتے تومسلمان قوم بڑی سیدھی اورجذباتی قوم ہے، وہ ان کو قائد اعظم بنا دیتی۔‘‘

سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کیلئے یہ رہی کہ باجپئی جی نے ایڈوانی جی کی رام رتھ یاترااوررام مندرتحریک کی خاموش تائید کی جس نے ملک کی سیکولربنیادوں کو ہلادیا۔ آپسی بھائی چارے پر کاری ضرب لگائی۔ ٹھیک ویسی ہی ضرب جیسی سردارپٹیل کی پہل اورگاندھی جی کی تائید پر ملک کی تقسیم پر آمادہ ہوکرکانگریس نے لگائی تھی۔ہم اجودھیا سانحہ کیلئے باجپئی جی کو کیا دوش دیں کہ تھے تووہ بھی سیوم سیوک ہی، جس پران کو فخر تھا۔ بی جے پی کو توفسادی ہندوواد چاہئے جس نے ملک کے ماحول کوزہر آلود کررکھا ہے۔ کسی بھی مذہب کاپیروکار خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ اگرایسا ہی چلتا رہا اور2019 میں تبدیلی نہیں آئی تواندیشہ ہے ایک مرتبہ پھرتقسیم وطن کے دور کی سیاہ تاریخ دوہرائی جائیگی۔ یہ سب کچھ بے لگام ستا کیلئے ہورہا ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ ہٹلر اور سکندر نہیں رہے،اسٹالن اورمسولینی نہیں رہے تو تم کیا رہوگے؟بقول راحت اندوری:
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
انسان کو اقتدار کی ہوس اندھا بنادیتی ہے۔لیکن وہ وقت بھی آتا ہے جب پرچھائی بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ کوئی دل سے رونے والابھی نہیں ملتا۔
اٹل جی کی زندگی کا ایک رومانی پہلو بڑادلچسپ ہے ۔ انہوں نے سنگھ پرچارک کے اصول پر عمل کیا اورزندگی بھرشادی نہیں کی۔ کربھی لیتے تو مودی جی کی طرح ہوسکتا ہے چھوڑ دیتے ۔ ان کے بارے میں ایک دلچسپ داستان عشق کا ذکرآتا ہے ۔ طالب علمی کی زمانے میں اٹل جی اپنی ایک خوبصورت ہم جماعت راجکماری ہکسرسے قریب ہوگئے۔ یہ قربت دلی تعلق میں بدل گئی۔ جوبات زبان پر نہ آتی وہ انہوں نے خط سے کہی جس کا جواب اگرراجکماری نے لکھا تو، مگراٹل جی کونہیں ملا۔ بات آگے نہیں بڑھی۔ وہ دورتھا ہی ایسا۔ اگرچہ دونوں برہمن تھے مگرراجکماری کا خاندان کشمیری تھا اوراپنے آپ کو زیادہ اعلیٰ برہمن تصورکرتا تھا۔

1947میں راجکماری کے والدین دہلی آگئے اور راجکماری کی شادی برج نارائن کول سے کردی جو دہلی یونیورسٹی میں فلاسفی پڑھاتے تھے۔ لیکن شادی کے باوجود دوستی کا رشتہ برقرار رہااوربڑھا۔مسزکول اپنے بچوں کے ساتھ اٹل جی کے ساتھ ان کے گھر کی منتظمہ کی طرح رہنے لگیں ۔ ان کی بڑی بیٹی کو اٹل جی نے منھ بولی بیٹی بنا لیا ۔یہ تعلق ایسا تھا جس پرپروفیسرکول نے بھی نہ کبھی اعتراض کیا اورنہ کسی نے چھپایا۔ ابتدائی دورکی محبت کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ البتہ شادی کے بعد اس کو نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ اٹل جی اور راجکماری نے یہ کردکھایا۔باجپئی کی اس پریم کہانی میں آج کل کے مجنوؤں کیلئے ایک سبق ہے۔ عشق اور محبت کا رشتہ شادی کے رشتہ سے زیادہ پاکیزہ ہوتا ہے۔ سماج کے تانے بانے کو توڑے بغیراوررنجشیں پھیلائے بغیردوستی کے رشتہ کو نبھایا جاسکتا ہے۔

مجھے اکثر قارئین کے دلی جذبات کا احساس ہے۔ مگرمیں کہتی ہوں اچھا اخلاق، اچھا رویہ اوراچھی تعلیم جہاں سے ملے وہ ہماراگم شدہ اثاثہ ہے۔ اس کو لے لیجیے۔ گلاب کا پھول جس ٹہنی پرلگاہوتاہے، اس میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی وجہ سے پھول کو ٹھکرانہیں دیتے۔ ہمارے دین کی تلقین اورمصلحت کا تقاضا ہے کہ غیروں میں جہاں کچھ اچھا ہے اس کا اعتراف کیجئے ۔ اس لئے ہم اٹل جی کی خوبیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وہ یقینابھاجپا کی موجودہ قیادت سے لاکھ درجہ بہترتھے۔ ان کیلئے بھی اس میں بڑا سبق ہے۔

نظم
۔۔۔۔۔۔
آؤ پھر سے دیا جلائیں
۔۔۔۔۔۔
بھری دوپہری میں اندھیارا
سورج پرچھائیں سے ہارا
انترتم کا نیہ نچوڑیں بجھی ہوئی باقی سلگائیں
آؤ پھر سے دیا جلائیں
ہم پڑاؤ کو سمجھے منزل
لکچھ ہوا آنکھوں سے اوجھل
ورتمان کے موہ جال میں آنے والا کل نہ بھلائیں
آؤ پھر سے دیا جلائیں
آہوتی باقی یگیہ ادھورا
اپنوں کے وگھنوں نے گھیرا
انتم جے کا وجر بنانے نو ددھیچی ہڈیاں گلائیں
آؤ پھر سے دیا جلائیں

نظم
۔۔۔۔۔۔
جنگ نہ ہونے دیں گے
۔۔۔۔۔۔
ہم جنگ نہ ہونے دیں
وشو شانتی کے ہم سادھک ہیں جنگ نہ ہونے دیں گے
کبھی نہ کھیتوں میں پھر خونی کھاد پھلے گی
کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھلے گی
آسمانوں پھر کبھی نہ انگارے اگلے گا
ایٹم سے ناگا ساکی پھر نہیں جلے گا
یدھ وہین وشو کا سپنا بھنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
ہتھیاروں کے ڈھیروں پر جن کا ہے ڈیرا
منہ میں شانتی بغل میں بم دھوکے کا پھیرا
کفن بیچنے والوں سے کہہ دو چلا کر
دنیا جان گئی ہے ان کا اصلی چہرہ
کامیاب ہو ان کی چالیں ڈھنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
ہمیں چاہیے شانتی زندگی ہم کو پیاری
ہمیں چاہیے شانتی سرجن کی ہے تیاری
ہم نے چھیڑی جنگ بھوک سے بیماری سے
آگے آ کر ہاتھ بٹائے دنیا ساری
ہری بھری دھرتی کو خونی رنگ نہ لینے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
بھارت پاکستان پڑوسی ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بار لڑ چکے لڑائی کتنا مہنگا سودا
روسی بم ہو یا امریکی خون ایک بہنا ہے
جو ہم پر گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Leave a reply