ایٹمی ملک چلانے والوں کی آڈیوز برائے فروخت — اعجازالحق عثمانی

0
46
audio leack

اگر آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں تو پھر یقیناً حال ہی میں آپ نے پانامہ لیکس کا نام سنا ہوگا ۔اور آج کل آڈیو لیکس کے بارے میں بھی اور لیک ہونے والی آڈیوز کو سن بھی رہے ہونگے۔ملکی تاریخ میں آڈیوز لیکس پہلی بار نہیں ہورہی ہیں،اس سے پہلے بھی آڈیوش اور ویڈیوز لیکس ہوتی رہی ہیں۔ مگر ہم نے کبھی اپنی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کی طرف غور ہی نہیں کیا۔

گزشتہ ہفتے آڈیوز لیکس کا شروع ہونے والا سلسلہ تا حال جارہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیرِاعظم عمران خان سمیت کئی اہم وزرا کی حساس نوعیت کی گفتگو لیک ہو چکی ہے۔ "انڈی شیل” کے نام سے ایک اکاؤنٹ ہیکرز کے ایک فورم پر بنایا گیا۔ اکاؤنٹ بنانے والے ہیکر نے پاکستانی وزیر اعظم ہاؤس کی آڈیوز کی اپنے پاس موجودگی کے متعلق ہیکرز فورم پر پوسٹ کی۔ جس کی قیمت 180 بٹ کوائن رکھی گئی ۔ یعنی پاکستانی وزیر اعظم ہاؤس کے لیک شدہ گفتگو کی عالمی مارکیٹ میں بولی لگائی گئی ۔ جی ہاں، جناب ! ایٹمی ملک پاکستان ہے یہ ، یہاں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ اور پھر ہیکر اسے عالمی مارکیٹ میں فروخت کے لیے بولی لگاتا ہے۔ مگر ایٹمی ملک بے خبر ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ہے۔

100 گھنٹوں سے زائد کی گفتگو کی ریکارڈنگ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی وزیراعظم ہاؤس جیسی حساس جگہ کی۔۔۔۔۔۔ ایٹمی ملک کو اپنا سر پیٹ لینا چاہیے۔ دنیا ٹیکنالوجی میں کتنی آگے بڑھ گئی ہے۔ کوئی دشمن ملک کتنی آسانی سے ہمارے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ سب سوچنے اور اسکا سب کا حل نکالنے کی بجائے آج بھی ہم فقط سیاست میں مصروف ہیں۔

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنی اور پرنسپل سیکریٹری کی مبینہ آڈیو لیک ہونے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” یہ معاملہ صرف اُن کی ذات کا نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کی عزت کا ہے”۔جناب ریاست پاکستان کی عزت وتکریم کو جتنا آپ لوگوں نے پامال کیا ہے۔ اب آپ یہ بات کرتے ہوئے اچھے نہیں لگ رہے۔

وزیراعظم ہاؤس جیسی حساس جگہ کی ایسی آڈیوز کا ریکارڈ ہونا اور پھر منظر عام پر آنا۔ ایجنسیوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔

اگر یہ کام کسی دوسرے ملک کا ہے۔ تو ہم بے خبر کیسے رہے؟۔سیکیورٹی معاملات اور خارجہ پالیسی جیسے حساس امور پر گفتگو جہاں ہوتی ہے ۔اگر وہاں کی سیکورٹی اتنی کمزور ہے۔ باقی ملک کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔

Leave a reply