اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی بچے اور فوج کی قید میں گزرے بچپن کی دردناک کہانی
مقبوضہ بیت االمقدس: مقبوضہ فلسطین پرجب سے اسرائیلیوں نےقبضہ کررکھا ہے اس دن سےفلسطینیوں کی گرفتاریوں اورنظربندیوں کا سلسلہ شروع ہے، کئی پیدا ہوئے توآنکھ اسرائیلی جیل میں کھولی ، ایسے بھی فلسطینی ملیں گے جو جیلوں میں پیدا ہوئے ، کوئی فلسطینی بچہ اپنے باپ کی انگلی پکڑکرگھرسے نکلا تو اس کوسیدھا جیل بھیج دیا گیا ، باپ نے احتجاج کیا تو بیٹے کے سامنے گولی ماردی گئی ،
یہ سلسلہ شروع دن ہے مگران بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کی خبرگیری تو دورکی بات ان کا تذکرہ کرنا بھی گوارا نہ کیا ، یہی وجہ ہےکہ اسرائیل کو اس پر شہہ ملی اوراس نے امت مسلمہ کی گہری نیند کا فائدہ اٹھایا اورپھرمسلمانوں پروہ مظالم کیئے کہ مورخ بھی ان واقعات کو قلم کی نوک پرنہیں لاسکتا ، ایسے ہے کئی فلسطینیوں کی جیلوں میں زندگی سے متعلق رہا ہونے والے یا پھرلمبے عرصے اندھیر کوٹھڑیوںمیں بند رہنے کے بعد جب دنیا کے سورج کی روشنی دیکھی توپھر نہ صرف حیران رہ گئے بلکہ وہ واقعات بیان کیئے کہ جن کو سن کر ہر آنگھ اشک بار ہوجاتی ہے ،
اس قسم کے واقعات پر بہت زیادہ رپورٹس منظرعام پرآچکی ہیںمگرایک معروف برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کچھ اس واقعات کو بیان کیا ہے ، بی بی سی کارپورٹر بیان کرتا ہے ہے ، ایک فلسطینی اپنی مظلومیت کی کہانی کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ،گرفتاری کے بعد مجھے وہ یروشلم میں ایک ملٹری کیمپ میں لے گئے اور مجھ سے تفتیش کی۔ وہ مجھ پر چیخ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ایک ایسے صفحے پر دستخط کروں جس پر عبرانی زبان میں کچھ لکھا تھا۔ وہ مجھ سے بہت عجیب سوالات پوچھ رہے تھے اور میں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ گرفتاری کے دن مجھے بھوکا اور پیاسا رکھا گیا۔ اس کے بعد مجھے اسرائیلی فوج ہاشرون جیل میں لے گئی۔‘
ملاک الغلیظ کی کہانی کوئی انوکھی نہیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔ مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی قبضے کی بدولت فلسطینی بچوں پر اسرائیلی فوج کا فوجداری نظام لاگو کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی فوج ہر سال 500 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کر لیتی ہے جن میں سے کچھ کی عمریں 12 برس کے لگ بھگ ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ گرفتار کیے جانے والے بچے قومی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔
200 سے زائد 18 سال سے کم عمر بچے اس وقت اسرائیلی قید میں ہیں۔
اپنے بیٹے کے مقدمے سے متعلق کاغذات ٹٹولتے ہوئے نبیل کہتے ہیں ‘یہ عبرانی میں ہے اور میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب میں عدالت گیا تو الزامات کی فہرست مجھے وہیں سے ملی ہے۔ اس فہرست میں ان کے خلاف الزامات کی تفصیلات موجود تھیں۔ لیکن مجھے کچھ بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ الزامات کس بارے میں ہیں۔ میں بالکل اس سے بے خبر تھا۔ کیا اس میں کچھ انگریزی کے الفاظ بھی تھے، ہو سکتا ہے کہ آپ اسے پڑھ سکیں۔ یہ سب عبرانی میں ہی لکھا ہوا ہے۔‘
محمود کو جس جیل میں رکھا گیا ہے وہ ان کے گھر سے ایک گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ مگر ان سے ملنے کے لیے ہمیں صبح 5:45 پر گھر سے نکلنا پڑا کیونکہ محمود کی فیملی کو اسرائیلی چیک پوائنٹس سے گزرتے ہوئے چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
‘چیک پوائنٹ، یہ سب معاملہ ہی چیک پوسٹ کا ہے۔ اس میں سرچ کے علاوہ کبھی کہتے ہیں آگے جاؤ پیچھے جاؤ یا اِدھر اُدھر جانا شامل ہوتا ہے۔ اور پھر جب کسی وجہ سے سکین کرنے والی مشین کا وِسل بجتا ہے تو پھر یہ ایک اور تھکا دینے والا مرحلہ ہوتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے جیسے ہم سب ہی قیدی ہوں۔‘
وہ تھپڑ جو دنیا بھر میں گونجا
16 سالہ عھد تمیمی نے مبینہ طور پر ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔ اس کے بعد انھیں جیل میں آٹھ مہینے گزارنے پڑے۔
عھد نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔
‘ہم اس پولیس سٹیشن چلے گئے جہاں انھوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی تھی۔ سب سے زیادہ کڑا وقت وہی تھا جب انھوں نے 16 دن تک مجھ سے تفتیش کی۔‘
عھد بتاتی ہیں کہ 16 دن میں ان سے چار مرتبہ تفتیش کی گئی اور کبھی بھی کوئی وکیل وہاں موجود نہیں تھا۔
دباؤ کا انداز
فلسطینی علاقوں اور اسرائیل سے متعلق بحث تقسیم در تقسیم اور جذبات پر ہوتی ہے۔ خاص طور پر بچوں کی نظر بندی کے معاملے سے۔
وکیل سحر فرانسیس ادامیر آرگنائزیشن کے لیے کام کرتی ہیں جو مغربی کنارے سے گرفتار ہونے والوں کی وکالت کرتی ہے۔
وہ کہتی ہیں ‘یہ ایک تسلسل سے جاری ایسا عمل ہے جس میں بچوں کو گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے۔ جب کسی 14 سال کے بچے کی گرفتاری کے لیے رات گئے کسی گھر پر چھاپہ مارا جاتا ہے تو اس کا مقصد صرف لڑکے کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے خلاف ایکشن لینا ہوتا ہے۔‘
’تصور کریں کہ ماں اور باپ کے سامنے جب ان کے نواجوان لڑکے کو رات کو اس کے بستر سے گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک سکیورٹی کے بارے میں ہے یہ صرف کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اس سب کا مقصد پورے سماج کو ظلم اور بربریت کے ذریعے قابو میں رکھنا ہے۔ خاص طور پر بچوں کو، اس طرح کے اقدامات سے بالآخر پوری نسل ہی متاثر ہوتی ہے۔‘
اسرائیلی قید کی ایک انتہائی متنازع شکل ایڈمنسٹریٹو نظر بندی کی ہے۔
یہ اسرائیلی فوج کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی کو بغیر کسی مقدمے یا ٹرائل کے ہی گرفتار کرلے۔ اس گرفتاری کی وجہ خفیہ شواہد ہوتے ہیں جو کسی قیدی یا اس کے وکیل کو نہیں دکھائے جاتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا ہے وہ قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہیں اور اس وجہ سے ان سے متعلق اطلاعات خفیہ ہی رکھی جائیں گی۔
حسام 16 سال کی عمر میں اس سارے مرحلے سے 14 ماہ تک گزرے۔
حسام کا دعویٰ ہے کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ کسی 18 سال سے کم عمر والے کو اس طرح کی قید میں رکھنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اپنی کوٹھری کے بارے میں حسام بتاتے ہیں ‘کوئی بھی اس سیل میں زیادہ دیر تک نہیں رکتا کیونکہ وہ ناقابل یقین حد تک گندا تھا۔ وہ سیل اصل میں ایک باتھ روم تھا جس میں زمین پر ایک چادر تھی اور آپ اسی چادر پر سوتے تھے۔ بس آپ ایک باتھ روم میں سوتے ہیں۔‘
جب حسام سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے کبھی وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے متعلق ان سے بات کی تو وہ کہتے ہیں ‘جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میرے حواس اڑے ہوئے تھے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ کچھ دن کی بات ہے اور پھر میں واپس گھر چلا جاؤں گا۔ میں نے تو ان کے خلاف کچھ ایسا نہیں کیا جس سے یہ معاملہ آگے بڑھے۔‘
آئی ڈی ایف نے بی بی سی کو بتایا کہ حسام کو خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے جن میں ان کے دہشت گردی کے حملے سے متعلق ارادے کو بھانپا گیا اور ان کی دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے حمایت بھی اس کی وجہ بنی۔
ان کا کہنا تھا کہ حسام کو عدالت میں ایک وکیل کی خدمات پیش کی گئیں جیسا کے تمام بچوں کو یہ سہولت یقینی بنائی جاتی ہے۔
14 ماہ قید میں رکھنے کے بعد حسام کو فردِ جرم عائد کیے بغیر رہا کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر مورس ہرش نے ہزاروں فلسطینیوں کے خلاف فرد جرم تیار کی ہے جس میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘یہ فوجی نظام صرف فلسطینیوں کے لیے ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کی شرط ہے۔ میں نے اکثر یہ سنا ہے کہ فلسطینی بچوں سے عبرانی زبان میں لکھے ہُوئے اعترافی بیان پر زبردستی دسخط لے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایک شاندار دعویٰ ہے۔ آپ ایک بچے کو ایک ایسی زبان میں اعترافی بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا اور پھر اس اعترافی بیان کو بنیاد بنا کر اس سزا دی جاتی ہے۔ لیکن یہ بالکل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ‘فلسطینیوں کے زیادہ تر بیانات عربی میں ہی لکھے ہوتے ہیں۔ جو بیانات عبرانی میں لکھے ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر کسی بچے کا بھی ٹرائل نہیں کیا جاتا بلکہ جہاں تحریری بیان ہوتا ہے وہیں اس کی آڈیو یا ویڈیو بھی موجود ہوتی ہے۔‘
مگر ملاک الغلیظ کہتی ہیں ‘مجھے دی گئی دستاویز عبرانی میں تھی، مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ کس بارے میں ہے، لیکن عدالت میں مجھے معلوم ہوا کہ اس میں دو الزامات عائد کیے گئے ہیں قتل کی کوشش اور چاقو کی برآمدگی۔ انھوں نے میری حراست میں دوران تفتیش لی گئی ایک ویڈیو بھی عدالت کے سامنے پیش کی۔ میرے وکیل نے اس ویڈیو کی مدد سے یہ دلائل دیے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے جس کی وجہ سے مجھے آٹھ ماہ تک قید میں رکھا گیا۔‘
آئی ڈی ایف نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر ملاک الغلیظ کے مقدمے پر کوئی بات نہیں کی۔
بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن رکن ممالک کو اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ بچوں کو آخری آپشن کے طور پر ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل نے بھی اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔
قانون کے مطابق بچوں کو جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا ہے، ان کو وکیل اور مترجم تک فوری رسائی دینے کے ساتھ ان کے ساتھ عزت سے پیش آنا ضروری ہے۔
فلسطینی خاندانوں کے لیے ان کے قید بچوں تک رسائی کا عمل طویل ہے اور ان کو چیک پوائنٹس سے رک کر جانا ہوتا ہے۔ نبیل کی فیملی کے ساتھ جب ہم محمود سے ملنے گئے تو ہمیں بھی چیک پوائنٹ پر ڈیڑھ گھنٹے تک روکا گیا۔
میڈیا کوریج سے پریشان نبیل کی بس کے منتظمین کا کہنا ہے ہم جیل تک نہیں جائیں گے۔ ملاقات کے لیے آنے والے خاندان عموماً اپنے بچوں کے لیے ٹوائلٹس کی بنیادی اشیا کا بندوبست کرتی ہیں کیونکہ جیل میں انھیں یہ سہولت نہیں فراہم کی جاتی، خاص طور پر لڑکیوں کو۔
عھد کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو ماہواری کے دوران سینیٹری پیڈ تو دیے جاتے ہیں مگر انھیں تبدیل کرنے کے لیے بیت الخلا نہیں جانے دیا جاتا اور کئی کئی گھنٹوں تک انھیں گندی حالت میں بیٹھنا پڑتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا کہ عھد تمیمی نے متعدد الزامات تسلیم کرلیے ہیں اور اب وہ متعدد الزامات کے لیے معافی کی درخواست کررہی ہیں۔
حسام بتاتے ہیں ‘دوران قید مجھے کوئی خیال نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوران قید آپ کو کچھ سجھ ہی نہیں آتا لہذا آپ خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ جب آپ کو رہائی نصیب ہوتی ہے تو پھر آپ کی سوچ میں وسعت آ جاتی ہے اور پھر آپ خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
اسرائیل مغربی کنارے سے گرفتار کیے گئے فلسطینی بچوں کو کوئی قانونی تحفظات فراہم نہیں کرتا جو اسرائیلی بچوں کو حاصل ہوتی ہے۔