عورت آزادی مارچ کیا ہے؟ تحریر محمد عبداللہ گل
عورت آزادی مارچ کیا ہے؟
محمد عبداللہ گل
عورت کو اسلام نے ایک وہ مقام و مرتبہ دیا ہے جو کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔اسلام نے اسے اپنی عزت اور مرتبے کی حفاظت کے لیے اک راستہ بتا دیا۔آج کل خواتین مارچ کر رہی ہیں کہ ان کے حقوق تلف کیے جا رہے ہیں۔عورت آزادی مارچ علماء اور باشعور لوگوں کے نزدیک ایک فریب ہے اس کے پیچھے مقاصد یہود اور ہندووں کے کارفرما ہیں۔
فرمان باری تعالی ہے :-
"یہ (یہود و نصاری)تمھارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے”
اسلام نے عورت کو حقوق عطا کیے۔
فرمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؛-
اے لوگوں ! عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو”
میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر بھی خواتین کے حقوق پر زور دیا۔
لیکن قارئین گرامی! اگر ہم آج کے لبرل طبقہ کا موقف دیکھے تو ان کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کو برہنہ رہنے کی اجازت دی جائے۔ان کے مقاصد میں ہے کہ ان خواتین کو فحاشی کے اڈے چلانے کی اجازت دی جائے۔ان آزادی مارچ والوں کا نعرہ ہے
میرا جسم میری مرضی
اس نعرہ کو جب ایک غیرت مند مسلمان بولتا ہے تو اس کے دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج کیا ہوگیا ہم لوگوں نے اپنی بیٹیوں، بہنوں، کی تربیت بلکل بھی نہیں کی جس کا۔نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔امت مسلمہ کے غیرت مند والدین نے جب اپنی بیٹیوں کو
بیکن ہاؤس(Beacon House) جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لیے داخل کروایا جس کا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ ہماری بیٹیاں کہنے لگ گئی
میرا جسم میری مرضی ان اداروں میں اسے تعلیم دی گئی کہ:-
"تیرے ساتھ تیرا باپ نا انصافی کر رہا ہے تجھے باہر جانے کی۔آزادی نہی دے رہا تو تیرے ساتھ نا انصافی ہے”
یہ تعلیمات دے کر عورت کو آزادی مارچ کرنے کے لیے بیرون عناصر نے فنڈنگ کرنا شروع کر دی اور اگر دیکھا جائے تو ان کا نعرہ ہے
تیزاب گردی بند کرو
اسلام نے تو عورت کو اتنا تحفظ دیا ہے کہ تو چار دیواری میں رہ اور اپنی عزت کی حفاظت کر لے۔لیکن جب عورت باہر نکلی اسلام کی تعلیمات کے ساتھ قتال کیا تو غیر محرم کی اس پر نظر پڑی اور پھر اس نے اس عورت پر تیزاب پھینکا شروع کیا۔قارئین! اگر یہ گھر میں رہتی تو اس کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہوتا۔
فرمان باری تعالی ہے:-
"اے نبی! اپنی بیویوں کو ،اپنی بیٹیوں کو اور مومنوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو کہ دو کہ گھروں میں رکی رہو”
ان لبرل معافیاں کا ایک اور نعرہ ہے:-
میں تمھارا کھانا کیوں گرم کروں
افسوس صد افسوس! اے امت مسلمہ کی بیٹی تجھے کیا ہو گیا تونے اسلاف کی تعلیمات کوبھلا دیا اور مغربی کلچر کو اپنا لیا
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام بطور مال غنیمت آئے۔تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ سارا دن چکی میں گیہوں پیستی ہو،پانی کا مشکیزہ بھی اٹھا کر لاتی ہو۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام لے آو تاکہ آپ کی کچھ مدد ہو جائے گی۔جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سلطان عرب کے پاس جا کر اپنا مدعا بیان کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا
"اے میری بیٹی فاطمہ! اپنا کام خود کیا کرو اور رات کو کام سے فراغت کے بعد تسبیح بتائی یہ کیا کرو”
آج کی عورت کا کیا مقام سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے اونچا ہے(نعوذ باللہ) اگر خاتون جنت اپنا کام اور حضرت علی کا کام کر سکتی ہے تو آج کی مسلمان عورت کیوں نہیں۔
اسکے بعد ایک اور مقصد ہے کہ
ہم پردہ کیوں کرے
اگر یہ خواتین مسلمان ہیں تو یہ نعرہ لگانا ان کے لیے بلکل درست نہیں۔عورت کا مطلب ہی چھپی چیز کا ہے۔
جس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سب امتی ہیں ان کی بیٹی خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ اپنےخاوند حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا وصیت کرتی ہے۔
"اے علی! میرا جنازہ رات کو اٹھانا اور میری چارپائی پر کھجور کے پتے بھی ڈالنا تاکہ کسی کو علم بھی نہ ہو کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا جنازہ جا رہا ہے”
لیکن قارئین! ان جاہل قسم کی عورتوں نے تو بے غیرتی کی انتہا کر دی کہ کہنے لگی میں پردہ کیوں کرو۔یا تو اے بہن! مسلمان کہلوانا چھوڑ دے یا یہ نعرہ چھوڑ دے۔
*ہمیں اس مارچ سےاختلاف کیوں؟
جیسا کہ اوپر میں نے ان کے چند ایک نعروں کی تفصیل بتائی اور ان کا جواب بھی دیا۔اب کچھ قارئین کے ذہن میں آئے گا مجھے اختلاف کیوں ہے۔یہ سارے نعرے امت مسلمہ کی بیٹی کے نہی یہ مغرب کی ڈینا، ٹینو کے ہے۔
ان کو امریکہ اور برطانیہ نے اس ملک پاکستان کی شریف اور متقی بیٹیوں کو تباہ کرنے کے لیے بھیجا ہے تاکہ شریف النفس امت کی بیٹیوں کو بھی تباہ کیا جائے۔اور امت مسلمہ کی مائیں محمد بن قاسم،سلطان محمود غزنوی جیسے شیر جننا چھوڑ دے۔
ہمیں اس بے غیرتی مارچ کا ہر پلیٹ فارم پر رد کرنا چاہیے اور ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب جو کہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنانا چاہتے ہیں ان کو ان موم بٹی مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
اسلام نے عورت کو کیا حقوق دئیے؟
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا(۴)۔
عورت بحیثیتِ انسان
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)
ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔
اورسورہ التین میں فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: ۴)
ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔
چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔(۵)
عورتوں کی تعلیم کا حق
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة(۶)
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریک، فاطمہ بنت قیس، وغیرہ نمایاں تھیں۔(۷)
معاشرتی میدان
جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)
مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:
النکاحُ من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی(۹)
نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۱۰)
چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۱۸۷)
عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔
یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔(۱۱)
معاشی حقوق
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
(۱) عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔
(۲) مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
(۳) وراثت: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴) مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
تمدنی حقوق
شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)
اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔
خلع کا حق
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔
حسن معاشرت کا حق
قرآن میں حکم دیا گیا: وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(۱۴)
بیویوں کے حقوق
اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:
”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(۱۵)
آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:
خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(۱۶)
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(۱۷)
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔(۱۸)
عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ”معروف“ کاخیال کیا جائے؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: ۱۹)
اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔
معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ”معروف“ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر جصاص رازی(المتوفی ۷۰ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔
اور معروف زندگی گزارنے سے مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔(۱۹ )
ابھی خواتین جو کہ آزادی مارچ میں ہیں کہتی ہے کہ اسلام نے ہمیں حقوق نہیں دئیے۔
افسوس صد افسوس!