عورت کا مقام اور ہمارا کردار . تحریر : بشارت حسین

0
21

اسلام نے عورت کو عظیم مقام دیا۔ اسلام سے پہلے عورت کو معاشرے میں ذلت و رسوائی کا کی علامت جانا جاتا تھا۔ بچی کی پیدائش پہ اس کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ معاشرے میں عورت کا وجود ذلت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسلام آیا تو اس نے عورت کو مقام دیا رتبہ دیا رفعت بخشی۔ اسلام آیا تو ماں کے قدموں میں جنت آ گئی۔ سارے رشتوں سے افضل درجہ ماں کو قرار دیا گیا۔ بیٹی کے وجود کو رحمت بنا دیا گیا بہن کو سہارا اور ہمت پیار و محبت کی تخلیق قرار دیا۔ عورت کو حقوق دیے وراثت کا حصہ دار بنایا۔ معاشرے کے بھلائی کی بنیادی تربیت کی درسگاہ بنایا۔ بیوی کے روپ کو شریک حیات بنا دیا باعث سکون بنایا.

جب شریک حیات کا لفظ سامنے آتا ہے تو ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ کوئی میری زندگی میں خاص ہے جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔
جس کے ساتھ دکھ درد بانٹنے ہیں جسکی خوشیوں میں اپنے غم بھلا کر شریک ہونا جس کے غم کو اپنے غم سمجھ کر دور کرنے ہیں۔ جس کی حفاظت کرنی ہے جو آبرو ہے عزت ہے۔ اسلام نے عورت کے مقام اور تحفظ کیلئے قرآن کی آیات نازل فرما دیں۔ آج ہمارا معاشرہ کا طرف جا رہا ہے بیوی کے حقوق کو دیکھیں تو معاشرہ بلکل ان پڑھ اور جاہل لگتا ہے.

عام طور پہ بیوی کو معاشرے میں ایک گھریلو کام کاج کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے جس کو نہ تنخواہ کی ضرورت ہے نہ پیار محبت کی بس شادی ہو گئی اور فری میں ایک ملازمہ مل گئی۔ اب وہ گھر کے سارے کام کرے گی ہر فرد کی ضروریات کا خیال رکھے گی بچے پیدا کرے انکو پالے گی بڑا کرے گی گھر کی رکھوالی کرے گی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پہ ڈانتنا،مارنا اور جھاڑنا یی روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہے۔

اس سوچ کا تعلق کہاں سے ہے؟
یہ کوئی اسلامی سوچ نہیں یہ ایک جاہلانہ سوچ جو دور جاہلیت سے چلی آ رہی ہیں۔ خاوند بیوی سے پیار سے بات نہیں کرے گا اس کے پاس نہیں بیٹھے گا کسی کے سامنے اس کو ہاتھ نہیں ملائے گا اس کی غلطی ہو یا نہ ہو کسی کی شکایت پہ اس کو جھاڑنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب عزت اور شرم و حیا کے نام پہ بنائے ہوئے غیر شرعی کام ہیں ہیں۔
بیوی کو ہاتھ نہیں ملا سکتے لیکن غیر محرم سے کوئی مضائقہ نہیں۔

کسی سوچ ہے یہ؟
اسلام نے شریک حیات کو بہت بڑا مقام دیا ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ بیوی سے محبت اور احترام اس کا بنیادی حق ہے۔ اسلام نے یہ رشتہ آپ کیلئے حلال کیا ہے اس کو آپ کے ہر مشکل کا ساتھی بنایا ہے۔ اسکے قدموں میں آپ کے بچوں کی جنت ہے۔ اس کے ساتھ کھانا کھانا کوئی گناہ نہیں اس میں کوئی شرم و حیا کا مسئلہ نہیں اس کے ساتھ سب کے سامنے بات کرنے میں کوئی مذہب آڑے نہیں آتا۔ بیوی کو وہ مقام دیں وہ عزت دیں جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ یہ سب جاہلانہ رسم و رواج ہیں جنکو اسلامی تعلیمات سے ختم کرنا ضروری ہے۔ اپنے شریک حیات کو ایسے رکھیں جیسے اسلام کہتا ہے ایسے نہیں جیسے اباو اجداد کہتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج ہم پھر اس مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں سے اسلام نے ہمیں چلایا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پہ گھر میں جیسے ماتم ہو جاتا ہے۔

بیٹے کی پیدائش پہ دیگیں مٹھائی اور بیٹی کی پیدائش پہ سوگ منایا جاتا ہے بیوی کو طعنے دیے جاتے ہیں جبکہ یہی بچی جب بڑی ہوتی ہے تو سہارا بن جاتی ہے بچے چھوڑ جاتے ہیں لیکن بیٹیاں اپنی خوشیاں والدین کیلئے قربان کر دیتی ہیں۔ آج معاشرے میں بہن کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے وراثت سے نکال دیا جاتا ہے اگر حصہ مانگیں تو لالچی تک کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

یاد رکھیں انکو یہ حقوق اسلام نے دیے ہیں۔ جو مقام عورت کو اسلام نے دیا ہم کون ہوتے ہیں اس کو پس پشت ڈالنے والے ہمیں کوئی حق نہیں کہ عورت کے حقوق کو نظر انداز کریں اسلام نے مرد کو عورت کا محافظ بنایا۔ جب گھر سے باہر نکلے تو ساتھ محرم مرد کو لے کر نکلے اس کا مطلب مرد عورت کا محافظ ہے نا کہ اس کی عزت کو روندنے والا۔

آج ہم کس مقام پہ کھڑے ہیں؟
ہم نے عورتوں کے مقام کو بھلا دیا آج عورت مرد کے ساتھ کو اپنے لیئے خطرہ سمجھنے لگی ہمارے اندر سے انسانیت اور اسلام کی روشنی غائب ہو گئی ہمارے اندر جہالت اور درندگی نے بسیرا کر لیا۔ ہم نے عورت کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے اس طوائف بنا دیا۔ اسے معاشرے کی نظر میں گرا دیا اس سے اس کا وہ مقام چھیننے کی کوشش کی جو اس کو اسلام نے دیا جسکی تعلیمات ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیں۔ آج عورت گھر سے نکلتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ گھر سے نکلتے ہی ہماری نظروں کے تیر اس کو گھائل کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے اس کی مجبوریوں کو دیکھ کر اس کا شرعی لباس چھین لیا آخر آج ہمارا رخ کا طرف ہے؟
کیا ہم اس مقام کی طرف جا رہے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا یا ہم اب بھی اس کو ترقی کا ہی نام دیں گے جس میں عورت کے وجود کی عزت خاک میں مل کر رہ گئی۔

Live_with_honor

Leave a reply