ڈیجیٹل باونڈریاں، رنگ برنگی کرسیاں ، سو فیصد شائقین ۔
کرکٹ آسٹریلیا 24 سال بعد راولپنڈی ٹیسٹ سے تاریخی سیریز کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔
ایک طرف ٹی ٹونٹی اور ون ڈے کے نمبر ون بیٹسمین بابر اعظم ٹیسٹ کے نمبر ون بالر پیٹ کمنز کا سامنا کریں گے تو دوسری جانب ٹیسٹ کے نمبر ون بلے باز مارنوس لبوشین کرکٹر آف دی ایئر "شاہین شاہ آفریدی” کے مدمقابل کھڑے ہوں گے۔
کرونا کے باعث حارث رؤف پہلے میچ میں شرکت نہیں کر پائیں گے ان کی جگہ اسی سٹیڈیم میں دنیا کے کم عمر ترین ٹیسٹ ہیٹرک کرنے والے نسیم شاہ جلوہ گر ہوں گے جبکہ وکٹوں کے پیچھے ٹی ٹونٹی کرکٹر آف دی ایئر محمد رضوان کھڑے ملیں گے۔
ماضی میں ایک نظر دیکھیں تو پاکستان اور آسٹریلیا کے ایک دوسرے کیلئے کبھی بھی آسان حریف ثابت نہیں ہوئے۔
آسٹریلیا نے بہت سے اہم مواقعوں پر پاکستان کو شکست دی 1999 ورلڈکپ فائنل میں پاکستان کو بدترین شکست ہوئی اور 2010 ورلڈکپ سیمی فائنل میں جب پاکستان جیت کے انتہائی قریب تھا تو سعید اجمل کی پٹائی کر کے مائیک ہسی نے پاکستانی شائقین کی ہنسی رنج میں بدل دی۔ 2021 ورلڈکپ سیمی فائنل میں جب پاکستان پیچھلے بدلے لینے کے قریب تھا کے حسن علی نے کیچ چھوڑا اور پاکستان نے میچ۔لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو 1999 کے ورلڈکپ سے 2011 ورلڈکپ تک مسلسل 34 میچوں میں ناقابلِ شکست رہنے والی آسٹریلیا کو آخری دفعہ 1999 ورلڈکپ میں پاکستانی شاہینوں نے شکست دی تھی جبکہ 2011 میں 34 میچوں کے بعد پاکستان نے ہی شکست دے کر یہ سٹریک توڑی۔ اگر پاکستان اور آسٹریلیا کی باہمی کرکٹنگ ہسٹری کو دیکھا جائے تو پاکستان اور آسٹریلیا پہلی دفعہ 1956 میں نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں مدمقابل آئے اور پاکستان نے وہ میچ 9 وکٹوں سے باآسانی جیت لیا۔
یہاں پے آپ کو ایک انٹرسٹنگ بات بتاتے ہیں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین دوسرا میچ 1959 میں ڈھاکا میں کھیلا گیا لیکن ڈھاکا تب پاکستان کا حصہ تھا اور اسٹیڈیم میں پاکستان ذندہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین آج تک 66 ٹیسٹ میچز کھیلے گئے کینگروز نے 33 اور شاہینوں نے 15 میچز جیتے جبکہ 18 مقابلے برابر قرار پائے۔
104 ایک روزہ مقابلوں ہوئے 68 میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی جبکہ 32 مقابلوں میں پاکستانی سرخرو ہوئے 4 مقابلے بلا نتیجہ ختم ہوئے۔ 24 ٹی ٹونٹی میں 13 کامیابیوں کے ساتھ شاہینوں کا پلڑا بھاری رہا جبکہ 10 مقابلوں میں شکست اور برابر رہا۔ کرکٹ آسٹریلیا اور پاکستان نے دو لیگ سپنرز "ریچی بینو” اور "عبدالقادر” کی یاد میں اس ٹرافی کا نام ‘بینو قادر ٹرافی” رکھا ہے۔ اور انٹرسٹنگلی پاکستانی پلینگ سکواڈ میں اس دفعہ کوئی لیگ سپنر نہیں کیونکہ "یاسر شاہ” ریزروز میں ہیں جبکہ آسٹریلین سکواڈ میں موجود لیگ سپنر ” میچل سویپسن "ابھی تک ٹیسٹ ڈیبیو کے منتظر ہیں۔ کرکٹ ایکسپرٹس کے مطابق اس سیریز میں فاسٹ باؤلرز کا رول زیادہ اہم ہوگا۔