عوامی مقامات اور ہمارا رویہ . تحریر :‌ قیصرعباس سیال

0
19

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

ملکِ پاکستان وہ مملکت خداداد ہے جسے ان گنت قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا. یہ وہ وقت تھا جب عوام میں ملک حاصل کرنے کا شعور تھا اورایک قوم بن کے سوچنے کا وقت بھی. موجودہ دور میں ایک سے بڑھ کر ایک معاشرتی مسائل موجود ہیں. معاشرہ تب بگڑتا ہے جب اجتماعی برائیوں سے قطع نظر انفرادی برائیاں بڑھ جاتی ہیں. ڈاکٹر محمد اقبال یونہی نہیں "افراد” پر زور دے گئے. کیونکہ ایک فرد بذاتِ خود پورا معاشرہ ہوتا ہے. مختلف مقامات پر انسان کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور بعض اوقات مختلف ہونا بھی چاہیے. کسی شخص کا مخصوص اوقات میں اپنایا گیا رویہ اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے. عوامی مقامات پر ہمیں کس قسم کے رویے اپنانے چاہیے؟ عوامی مقامات میں کیا کیا شامل ہے؟ کیا عوامی مقامات پر منفی رویہ معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے؟ آئیے کچھ مقامات پر ہمارے رویوں کا جائزہ لیتے ہیں.

پبلک پارک: صحت مند جسم میں ہی صحت مند ذہن ہو سکتا ہے، یہ تو ہم نے کتابوں میں پڑھ لیا. اس جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے بہت سی ضروری چیزوں میں سے پارک ایک نہایت ضروری چیز ہے. صبح و شام پارک میں چہل قدمی انسان کو جسمانی و ذہنی طور پر تر و تازہ رکھتی ہے. سوچنے کی ضروت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے کسی رویے کی وجہ سے پارک میں موجود کوئی شخص متاثر نہ نہیں ہو رہا ہو. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارکس میں کچھ "نوجوان” طبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات وہاں آئی فیملیز پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی طور پر ان رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں.

پبلک مقامات میں زیادہ استعمال ہونے والی جگہوں میں ایک بینکوں کے اے ٹی ایم بھی ہیں. یہاں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور اندر موجود ایک شخص کچھ غیر ضروری معلومات دیکھتے دیکھتے آدھا گھنٹہ صرف کر دیتا ہے جو باہر کھڑے لوگوں کے لیے اذیت ہے. ہمیں چاہیے کہ جس بینک میں اکاؤنٹ ہے اس کی موبائل ایپلیکیشن اپنے موبائل میں رکھیں اور بیلنس معلوم کرنا، بلوں کہ ادائیگی اور فنڈز ٹرانسفر جیسے کام گھر بیٹھ کر ہی کریں تا کے اے ٹی ایم پر کم سے کم رش ہو.

ملک کا بیشتر طبقہ آمدورفت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتا ہے. اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بس / ویگن میں موجود اخلاقی اقدار سے ناواقف کچھ لوگ ایسے کام کر رہے ہوتے جو ساتھ بیٹھے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں.
سگریٹ-نوشی، پان چبانا، تھوکنا، اونچی آواز میں فون سننا اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی ان میں سے چند ایک ہیں. یہ ضروری ہے کہ سفر کو سفر سمجھ کر ہر شخص ساتھ بیٹھے شخص کو سہولت فراہم کرنے کا شعور رکھے.

ملک پاکستان کو اللّٰہ پاک نے جس خوبصورتی سے نوازا ہے وہ شاید ہی کسی اور ملک میں ہو. یہاں گرم و سرد علاقے ، سر سبز میدان، دریائی مقامات، سمندری نظارے اور خوبصورت پہاڑی علاقے موجود ہیں. جہاں انواع و اقسام کی جگہیں موجود ہیں جو مقامی و انٹرنیشنل سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں. مگر کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم بطور سیاح جب کسی مقام پر جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں یا وہیں سے کچھ لے کر کھاتے ہیں یا استعمال کرتے ہیں تو کوڑا کرکٹ وہیں ڈھیر کر دیتے ہیں.
پہاڑوں میں وادیوں میں جہاں ہم کیمپ لگاتے ہیں وہاں جا کر کس نے صفائی کرنی ہوتی ہے. اس لیے اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم ان مقامات سے اپنے استعمال کے بعد بچنے والی چیزوں اور کوڑے کو اچھی طرح یا تو تلف کریں یا پھر اپنے ساتھ واپس لائیں اور جہاں کوڑے دان لگے ہوں وہاں ڈالیں. یہ رویہ ہمارے صحت افزا مقامات کو بحال رکھے گا.

بھی بہت سے مقامات پر ہمارے رویے لوگوں پر منفی اثر ڈال رہے ہوتے ہیں. ان سب مسائل کا ایک ہی حل ہے. کہ ہم دوسروں کے لیے جو پریشانی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں، ہم یہ سوچیں کہ اگر یہ ہمارے لیے کوئی پیدا کرے تو کیا ہمیں ناگوار نہیں گزرے گا؟
سوچنا شرط ہے. انفرادی تبدیلی لائیں، اجتماعی تبدیلی خود بخود آ جائے گی.

Twitter : @Q_Asi07

Leave a reply