آزادی ،تحریر:ارم شہزادی

0
37

لفظ آزادی بے پناہ وسعت رکھتا ہے اور آزادی کی تعریف زمانہ قدیم سے لے کر زمانہ جدید تک مختلف افکار کے مطابق مختلف رہی۔ آزادی کہتے کسے ہیں؟ آج کا یہ اہم موضوع ہونا چاہیئے تھا لیکن بدقسمتی سے اس پر اس طرح کام نہیں ہورہا جس کی وجہ سے معاشرہ بجائے محفوظ ہونے کے انتشار کا شکار ہے۔ کیا آزادی کا مطلب مدر پدر آزادی ہے؟ کیا آزادی دین سے بیزاری کا نام ہے؟ کیا آزادی کا مطلب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی کی جان مال کو غصب کرنے کا نام ہے یا پھر آزادی معاشرے میں رہتے ہوئے جیو اور جینے دو کی پالیسی کا نام ہے؟ ہم مسلمان ہیں اور بحثیت مسلم ہمارے ہاں آزادی کا تصور زرا مختلف ہے لیکن یہاں دیکھیں گے کہ مغرب آزادی کی تعریف کیسے کرتا ہے؟ اسکے قدیم اور جدید مفکرین کیسے بیان کرتےہیں؟
ہیگل مغربی مفکرین میں ایک اہم نام سمجھا جاتا ہے۔ وہ آزادی کے متعلق لکھتا ہے "دنیا کی تاریخ سوائےاس امر کے اور کسی واقعہ سے بھرپور نہیں کہ انسان ارتقائی لحاظ آزادی کے تحفظ میں مسلسل کوشش جاری رکھی اور وہ آج تک تحفظ آزادی کے لیے سرکرداں ہے، البتہ آزادی کی نوعیت میں فرق ضرور پڑتا رہا ہے۔ کبھی یہ آزادی زاتی نوعیت کی رہی کبھی مجموعی نوعیت کی، کبھی شخصی حکومت کی آزادی کا تحفظ رہا ہے، کبھی جمہوری طرز کا بچاؤ ہوتا رہا ہے۔ بہرحال حقوق کے تحفظ کی آزادی کی بنا پر تاریخ ارتقائی مراحل طے کرتی رہی ہے۔ جہاں تک مشرقی اقوام کا تعلق ہے انکے زہن میں انفرادی آزادی، سماجی آزادی کے علاوہ روحانی آزادی بھی سمائی رہی ہے۔” ہیگل کے نزدیک فرد کی آذادی کی ضامن صرف ریاست ہے ۔اگر فرد کو ریاست کی پشت پناہی حاصل نا ہو تو فرد کی آزادی کیا اسکی جان مال کو بھی خطرہ ہے۔اسکا مطلب ہیگل انسان کی انفرادی آزادی کے ساتھ اسکی قومی آزادی کا خواہاں ہے۔اسکے نزدیک انفرادی آزادی کا راز رائج الوقت قوانین کی اطاعت اور اپنے حقوق کی اسانی سے جڑا ہے۔ ایسے حقوق جن کی بنیاد خوش اخلاقی پر قائم ہو۔اخلاقی قدروں کے تقاضے کے مطابق اگر کوئی فرد کچھ وقت کے لیے ریاست کے دوسرے حصے یا دوسری ریاست چلا جاتا ہے تو بھی اپنی ریاست کے قوانین کی پاسداری اسکے فرائض میں ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو دوسری ریاست بھی اسکی عزت کرےگی اسکے وقار میں اضافہ ہوگا۔ کیا اجکل ایسا ہورہا ہے؟ کیا آزادی کا یہ کانسیپٹ متصادم نہیں ہے موجودہ دور کے لفظ آزادی کی تشریح میں؟ ایک اور مغربی مفکر ہےفشے (Fachte) کا کہنا بھی یہی ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف ریاستوں میں رہنے والے لوگوں کے مزاج اطوار مختلف ہیں اور اس اختلاف نے انفرادی آزادی کی مختلف اقسام کو جنم دیا۔اور اسی لیے دنیا میں ثقافت کے بھی کہئ رنگ ہوتے ہیں۔جو بالآخر افراد کی نفسیات، خیالات، اور مطمع ہائے نظر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔فرد بنیادی طور پر اطاعت کے لیے پیدا ہوا ہے چاہے یہ اطاعت ریاست کی ہو، یا مقتدر اعلیٰ کی، اخلاقی نوعیت کی ہو یا روحانی۔ ہرفرد کو اطاعت شعار ہونا پڑتا ہے، لیکن اس اطاعت کے باوجود اسکے کچھ حقوق ہیں، ان حقوق کا آسانی سے حاصل ہوجانا آزادی کی دلیل ہے۔کسی بھی فرد کو حقوق اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک اسکا تعلق براہ راست کسی ریاست سے نہیں ہوتا۔

ایک اور مفکر جان سٹورٹ مل ہے ۔اسکا نظریہ آزادی تھوڑا مختلف ہے ہیگ اور فشے سے یہ شخصی آزادی کو اہمیت زیادہ دیتا ہے ریاست کے اختیارات محدود کرتا ہے یہ کہتا ہے کہ ریاست اس وقت دخل دے سکتی ہے جب کسی دوسرے کے مفاد عامہ کو نقصان ہو۔ ورنہ شخص جہاں چاہے جائے جو مرضی کرے کسی کو حق نہیں کہ وہ اسکی آزادی کو سلب کرے اگر یہ بات مان لی جائے تو بات وہی ہے جو اس سے پہلے والے مفکرین کر چکے کہ آزادی کا مطلب دوسروں کو روند دینے کا نہیں بلکہ اخلاقی اقدار اپناتے ہوئے معاشرے میں امن قائم کرنا ہے۔ مل ایک قدم اگے ضرور بڑھتا ہے وہ خواتین. کی آزادی کو بھی شامل کرتا ہے۔ وہ خواتین کو تمام حقوق مردوں کے برابر نا سہی لیکن کچھ حقوق ضرور ملنے چاہیئں۔ مل کا خیال ہے فرد کو نجی ملکیت کا حق ہونا چاہیئے کیونکہ نجی املاک افرادمعاشرہ کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ٹامس ہل گرین آزادی کا مداح ہے لیکن ساتھ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ فرد کے جو دل میں آئے وہی کرتا پھرے چاہے اس سے دوسرے کو نقصان ہی کیوں نا پہنچے بلکہ وہ آزادی کو کی حد مقرر کرنے پر زور دیتا ہے۔آزادی اسی وقت تک مستحسن ہوسکتی ہے جب وہ کسی دوسرے کے نقصان کا موجب نا بنے۔ اسک کہنا ہے کہ آزادی کا مطلب. معاشرے کی فلاح ہے ناکہ مزاحمت۔ ایک اور مفکر ہر برٹ اسپنسر ہے کا کہنا ہے۔”ہرایک انسان اپنی مرضی اور عمل میں ازاد ہے، بشرطیکہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی پر دست درازی نا کرے جو اسی کی طرح انہیں حاصل ہے۔”ان تمام مفکرین کی اراء میں بھی کہیں ازادی کا مطلب دوسروں کو تہس نہس کرنا نہیں بلکہ آزادی کوریاست کے تابع کرنا ہے دوسروں کی آزادی کا اتنا ہی خیال رکھنا ہے جتنا کہ اپنی آزادی پھر یہاں کیوں لوگ چند دنیوی فائدے کے لیے ملکی اقدار کو داؤ پے لگا دیتے ہیں کیسے وہ اسائلم کے لیے یا روپے پیسے کے لیے ملکی اداروں کی ساکھ داؤ پے لگا دیتے ہیں؟ ریاست زمہ دار ہے اپکی تو کیوں اسکے خلاف برسرپیکار ہیں؟ اپنی ریاست یا اپنا ملک اپکی پہچان ہے اسکے نام کو وقار کو داؤ پے لگاؤگے تو عزت خود بھی کہیں نہیں پاؤگے۔ شخصی آزادی یا اجتماعی آزادی ہو ریاست سے وفاداری کا تقاضا کرتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے ملک کے ساتھ وفادار رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ امین
جزاک اللہ
تحریر تحقیق ارم رائے

Leave a reply