14 اگست 1947 کو ملک پاکستان کاغذی طورپہ آزاد ہوا۔
لیکن ذہنی طورپہ آج بھی یہ ملک اور اس ملک کی عوام آزاد نہ ہوسکی البتہ حکمران آزاد ہیں۔
کیونکہ ملک کی آزادی کیلئے اصل کردار اداء کرنے والے ملک کے آزاد ہوتے ہی پیچھے ہوگئے اور لوٹیروں نے قبضہ کر لیا۔
علماء و صوفیاء جنہوں نے بھرپور انداز میں تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کو قوت بخشی جب پاکستان بننے کے بعد انہیں عہدوں کی آفر کی گئی تو اکثر نے اس آفر کو ٹھکرا دیا جن میں سب سے بڑا نام شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ (سیال شریف سرگودھا) کا ہے۔
اسی طرح مولانا عبد الستار خان نیازی جنہوں نے تحریک پاکستان کیلئے تن من دھن قربان کیا۔
پاکستان بننے کے بعد 1953 کی تحریک ختم نبوت میں صف اول کے مجاھد ہونے کی وجہ سے قید ہوئے اور سزائے موت کی سزاء سنائی گئی۔
یعنی ملک پاکستان کے اصل وارث اسی دن سے ظلم ستم و جبر کا شکار ہونا شروع ہوگئے جس دن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جس ایمبولنس پہ لے جایا جارہا تھا اس کا راستے میں پٹرول ختم ہوگیا۔
پٹرول ختم ہوگیا یا ختم کیا گیا۔۔۔
اس پر بہت ساری بحث و تکرار ہو چکی ہے اور اب بھی وقتاً فوقتاً یہ موضوع زیر گردش رہتا ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جب بانی پاکستان کی وفات اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وفات کے بعد
ملک پاکستان کو کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا۔
اگر کوئی مخلص ہوکے سامنے آیا تو اسے ایسا دبایا گیا کہ وہ دوبارہ یا تو سر نہیں اٹھا سکا یا پھر سانس ہی نہیں لے سکا۔
یہ جاگیردارانہ نظام دن بدن ترقی کرتا چلا گیا
اور آج یہ نظام اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے یہ قوم کے لٹیرے
جو من میں آتا ہے اپنی عیاشی کیلئے بل پاس کرکے آزاد ہوتے جارہے ہیں حالانکہ اس ملک کا آئین شریعت کا پابند ہے۔
لیکن یہاں جو نفاظ شریعت کی بات کرتا ہے اس کیلئے ذہنی و جسمانی سختیاں تو ہیں ہی ساتھ میں غیر شرعی قانون بھی پاس کر کے مزید پابند کرتے چلے جارہے ہیں۔
قومی و عوامی مسائل پہ کارکردگی صفر، معیشت پہ کارکردگی صفر، وزارت داخلہ و خارجہ پالیسی صفر،
لیکن مہنگائی و بے رزگاری بڑھانے میں یہ حکمران مکمل آزاد ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن
عوام مکمل طورپہ ظلم و ستم اور مہنگائی کے چنگل میں جکڑی ہوئی ۔
ملک آزاد حاصل کیا لیکن ہم آزاد نہ ہوسکے.
پاکستان میں نظام عدل اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ پاکستان کے اکثر تھانوں میں تعنیات کیا ہوا "ایس۔ایچ۔او” کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی قدر ہمارے منتخب کردہ "ایم۔این۔اے” یا "ایم۔پی۔اے” کی زبان کی ہوتی ہے۔
لیکن اس زبان کو طاقت دینے میں ہمارا اپنا بھرپور ساتھ ہوتا ہے
کیونکہ ہم نے پڑوسی کے ساتھ جھگڑا کرنا اپنی وراثت سمجھا ہوا ہے اسی طرح اگر پڑوسی نے بھی ہم سے لڑنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوتا ہے۔
اور جب پڑوسی یا کوئی بھی رشتہ دار ہم سے لڑ پڑے تو "ڈائریکٹ” قانون کا دروازہ نہیں کھٹکٹاتے
بلکہ ہم ایم این اے کا دروازہ کھٹکٹاتے ہیں جنکے ہم نے نعرے لگائے ہوتے ہیں
اب ان ایم این اے کو مزید نعروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور تھانوں کو جس طرح پہلے یرغمال بنایا ہوتا ہے وہاں اب مزید دب دبا جما کے اپنا رعب ظاہر کرنا ان کا کام بن جاتا ہے۔
وہ ایم این اے جس کا کام خارجہ پالیسی کو مضبوط کرنا ہوتا ہے
وہ صرف اپنے ماتحتوں کو مضبوط کرتا ہے۔
تھانے دار کو رشوت دلواتا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کراکے اس ذہنی غلام قوم سے اپنی واہ واہ سمیٹ لیتا ہے اور ساتھ میں اگلے الیکشن کیلئے ووٹ بھی پکا کر لیتا ہے۔
سوچنے کی بات تو یہ ہیکہ اس ایم این کا اپنا کیس کبھی ایسا نہیں آتا جس میں پڑوسی کا جھگڑا یا رشتہ دار کا معمولی جھگڑا شامل ہو
بلکہ یہ کام اس نے اپنے سپورٹروں کے ذمہ لگائے ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنی سوچ اپنے معیار اور اپنے انتخاب کو بدلنا ہوگا
تانکہ ہم اس معاشرے کو ذہنی غلامی سے نکال کر آزاد ہو سکیں۔
@1sareer
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved