باپ ایک انمول ہستی بقلم : شہباز غافل

0
43

باپ ایک انمول ہستی
شہباز غافل

"قوی قلب اور ماتھے پہ شکن کے نشاں
وہ ہے اِک باپ مگر ہے عظیم انساں”

باپ سہہ حرفی الفاظ کا مجموعہ ہے۔ یہ لفظ اپنے اندر پیار، محبت، خلوص، قربانی اور ناجانے کن کن بیش قیمتی نگینوں کو سموئے ہوئے ہے۔
بلاشبہ ایک جوڑے کے لیے والدین بننے کا احساس بہت جدا اور ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

پھر اولاد کے گھٹنوں کے بل چلنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے تک کا سفر، باپ کو تو کہیں سانس لینے کی بھی فرصت نہیں دیتا۔ وہ بچوں کی اچھی پرورش کو ہی اپنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہے اور عمر کے اس حصے کو پہنچ جاتا ہے جہاں اسے خود سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. ایسے میں اولاد اکثر اپنی ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔
حضور اکرمؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"والدین کو پیار بھری نظروں سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔”
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دنیا بالخصوص مغرب میں باپ کو ایک سیڑھی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور کام ہو جانے پر ان کو پُرانے سامان کی طرح کسی کونے میں پھنک دیا جاتا ہے یا کسی اولڈ ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے۔

باپ وہ ہستی ہے جو اپنے بیٹے کے روزگار سے شادی تک اور بیٹی کو تعلیم دلوانے سے رخصتی کرنے تک بہت سارے جتن نہیں کرتا ؟
حیرت ہے کہ نظریں دھندلا جانے کے بعد وہی اولاد باپ کو ذرا سی کرنیں دینا بھی بوجھ سمجھتی ہے۔
ایک دفعہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کہ ذلیل و خوار ہوا وہ شخص،ذلیل و خوار ہوا وہ شخص،ذلیل و خوار ہوا وہ شخص۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللّٰہؐ کون سا شخص ذلیل و خوار ہوا؟
تو رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا:”وہ شخص ذلیل و خوار ہوا جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور ( ان کی خدمت نہ کر کے ) جنت کا حقدار نہ بن سکا۔”
باپ کی محبت کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ بسترِ مرگ پر بھی اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کا گلہ تو گھٹ دیتا ہے مگر اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
بلاشبہ باپ سورج کی مانند ہوتا ہے، جس کی تپش تو ہوتی ہے، پر اندھیرا دور کرنے میں بھی یہی کام آتا ہے۔
باپ امیر ہو یا غریب دونوں ہی اپنی اولاد کی پرورش بخوبی نبھاتے ہیں، لیکن یہ دونوں تصویر کے دو الگ الگ رُخ ہیں۔ ایک وہ ہے جو اولاد کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت رکھتا ہے اور ایک وہ جو اپنے آنکھوں کی نمی چُھپانے کی خاطر رات کے اندھیرے میں گھر لوٹ کر آتا ہے۔ باپ امیر ہو یا غریب،باپ تو باپ ہے۔
بے شک باپ کی دولت نہیں سایہ ہی کافی ہوتا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ وہی اولاد گھنیرے شجر کے سایہ میں کیے ہوئے آرام کو بھول جاتا ہے۔ بے شک
زندگی ایک پیڑ کی مانند ہے،جس کی جڑیں باپ ہے۔
پس ثابت ہوا کہ باپ ایک انمول ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ جو اولاد والدین کی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے وہ زندگی میں کبھی بھی سُکھی نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے والدین سے حسن سلوک کریں۔
اللّٰہ ہمیں والدین کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔۔۔۔آمین

Leave a reply