مزید دیکھیں

مقبول

ملزم ارمغان نے وکیل کو دھمکیاں دینے کے مقدمے میں اعتراف جرم کرلیا

کراچی: ملزم ارمغان کی اپنے خلاف درج مقدمات میں...

سیالکوٹ: احترام رمضان کی خلاف ورزی، 4 ہوٹل مالکان گرفتار، 3 سیل

سیالکوٹ، باغی ٹی وی( بیورو چیف شاہد ریاض)ایڈیشنل ڈپٹی...

بابائے سندھی صحافت مولانا دین محمد وفائی. تحریر : ریحانہ صبغتہ اللّٰہ علوی

مولانا دین محمد وفائی 14اپریل 1894ءکو سندھ مردم خیز ضلع شکار پور کے گوٹھ بنی آباد میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم و تربیت ان کے والد حکیم گل محمد نے کی ۔جب مولانا نو برس کے ہوئے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا ۔والد کے انتقال کے بعد مزید تعلیم کی ذمّہ داری قریبی مدرسے کے استاد محمد اسلم کو سونپی گئی ان کی زیر نگرانی مولانا نے صرف 12سال کی عمر میں فارسی زبان میں مہارت حاصل کرلی ۔عربی زبان سیکھنے کے لئے انہوں نے لاڑکانہ کے علاقے سونو جتوئی میں واقع مدرسے کا رخ کیا ۔18 سال کی عمر میں آپ نے رسمی تعلیم مکمل کر لی۔اور اپنے کیریئر کا آغاز سکول ٹیچر سے کیا ۔کچھ ہی عرصے میں ان کی شہرت ایک بہترین استاد کی حیثیت سے پورے سندھ میں پھیل گئی ۔یہی وجہ تھی کہ رانی پور کے پیر نے اپنے بیٹوں کی تعلیم کے لئے آپ کو استاد مقرر کیا ۔اس کے بعد امام الدین راشدی نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کی خدمات حاصل کیں ۔

مولانا دین محمد وفائی کا شمار سندھ کے ان بہادر سپوتوں میں ہوتا ہے جن پر یہ دھرتی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی ۔
مولانا صاحب ایک عالم فاضل شخص تھے ۔انہوں نے اگرچہ مغربی فلسفے سے بھی استفادہ کیا لیکن ان کی فکر کی اساس دانش مشرقی اور علوم دینیہ پر رکھی گئی تھی ۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں میں اپنے قلم کو آزمایا ۔ان کی تحریر کردہ کتب کی تعداد پانچ درجن سے زائد ہے ۔مولانا نے دنیائے صحافت سے اپنے جوہر منواۓ اور "توحید”کے عنوان سے سندھی پرچہ جاری کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے تحریک خلافت کے دوران بھی مجاہدانہ کردار ادا کیا ۔ پہلی عالم گیر جنگ کے دوران ترکی کے عثمانی خلیفہ نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔اس دور میں خلافت عثمانیہ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ حکومت سمجھا جاتا تھا ۔جب عثمانی خلیفہ نے سلطنت برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو بر صغیر کے مسلمانوں نے بھی انگریزوں کے خلاف مہم تیز کر دی ۔1918ءمیں ترکی کو جنگ میں شکست حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں اتحادیوں نے عثمانی سلطنت کے حصے کر دئیے اور خلیفہ کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ۔اسی پس منظر میں بر صغیر کے مسلمانوں نے "تحریک خلافت”چلائی تھی ۔
1919ءمیں مولانا صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ ان حالات میں سیاست سے لا تعلقی اختیار نہیں کر سکتے اور یہ ان کی مذہبی ذمّہ داری ہے کہ وہ خلافت کے تحفظ کی عملی جدو جہد میں شریک ہوں ۔اس طرح انہوں نے تحریک خلافت کے سر گرم کارکن کے طور پر طویل اور صبر آزما جدو جہد کا آغاز کیا ۔جس کے نتیجے میں ان کا شمار سندھ کے قابل احترام سیاسی رہنماؤں میں ہونے لگا ۔
انگریزوں نے جیسے ہی ہندوستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی خطرے کی بو سونگھی فوراً ہی چند زر خرید علماء سے "تحریک خلافت”کی مخالفت میں فتویٰ دلا دیا ۔مولانا نے اس فتویٰ کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ تحریک بھی چلائی ۔اس حوالے سے انہوں نے مولانا تاج محمد امروٹی کی رہنمائی میں ایک کتاب بھی تحریر کی جو مارچ 1920ءمیں لاڑکانہ میں منعقدہ”خلافت کانفرنس”کے دوران تقسیم کی گئیں ۔اس کتاب کو خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں ابوالکلام آزاد ،مولانا شوکت علی اور مولانا عبد الباری لکھنوی جیسے جید علمائے کرام شامل تھے ۔
مذکورہ کانفرنس کے بعد مولانا صاحب کو جمعیت العلمائے سندھ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ۔
مولانا کی شخصیت کا ایک پہلو سندھی صحافت کے لیے ان کی گراں قدر خدمات بھی ہیں ۔1918ءمیں انہوں نے "الکاشف”کے نام سے ایک سندھی جریدے کی اشاعت شروع کی ۔1920ءمیں انہیں سندھی روز نامہ "الوحید”کی اشاعت اور مقبولیت بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ان کے مضامین کو سندھی زبان وادب کے بہترین نمونوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔مولانا صاحب کی صحافتی صلاحیتوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے کراچی سے سندھی زبان میں ایک ماہنامہ "توحید”کے نام سے جاری کیا اس پرچے کا سلوگن تھا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا ، نام ونشان ہمارا
علمی ،ادبی،تاریخی،مذہبی،سماجی اور تعلیمی نوعیت کے مضامین اس پرچے کی زینت بنتے تھے ۔1943ءمیں مولانا صاحب نے ایک ہفت روزہ اخبار "آزاد”کے نام سے جاری کیا جو کراچی میں واقع ان کے پرنٹنگ پریس میں ہی چھپا کرتا تھا ۔بعد میں ان کے بیٹے علی نواز وفائی نے اس اخبار کی ذمّہ داریاں سنبھالیں ۔
برٹش راج کے دنوں میں نصابی کتب کا آغاز ملکہ وکٹوریا کی تاجپوشی کے تذکرے سے اور اختتام اس وقت کے برطانوی حکمران شاہ جارج پنجم کی صحت اور درازی عمر کے لیے دعا پر ہوا کرتا تھا ۔مولانا نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سنہری تاریخ سے واقف کرانے کے لیے بھرپور جد و جہد کی کیونکہ ان کا موقف تھا کہ جو قوم اپنی تاریخ سے ناواقف ہو اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کی یاد داشت کھو گئی ہو اور جب تک افراد ملت اپنے سنہرے ماضی سے بے خبر رہیں گے ان میں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے درکار خود اعتمادی پیدا نہ ہو سکے گی ۔
مولانا سے متاثر ہوکر پیر علی محمد راشدی، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر دانشوروں نے سندھ کی تاریخ کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ۔
مولانا نے تاریخی موضوعات پر جو کام کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
پیر حسام الدین راشدی نے انہیں "سندھی مورخین”کا امام قرار دیا ۔
سندھ کے ممتاز ماہر تعلیم ،شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ انہیں "زندہ ڈکشنری”کہا کرتے تھے ۔
جبکہ پیر علی محمد راشدی انہیں "چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا”کہا کرتے تھے ۔
مولانا صاحب محض مذہبی علوم میں ملکہ نہ رکھتے تھے بلکہ انہیں تاریخ ،عمرانیات،جغرافیہ،لسانیات اور قدیم سندھی شاعری پر بھی عبور حاصل تھا ۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام میں انہیں ممتاز مقام حاصل ہے ۔
انہوں نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے حوالے سے دو کتب تحریر کیں ۔جن میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی تعلیم و تربیت اور فکری ارتقاء کو موضوع بنایا گیا ہے ۔جبکہ دوسری کتاب میں تاریخ بیان کی گئی ہے ۔انہوں نے 60سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے بعض کی اشاعت کی نوبت ہی نہیں آئی ۔
ان کی مشہور و معروف تصانیف میں مشاہیر سندھ ،تجریدبخاری اور تجرید صحیح بخاری شامل ہیں ۔
جسے احادیث کی مستند ترین کتاب کا پہلا سندھی ترجمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
مولانا صاحب کی دیگر کتب میں الہام باری ،محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ،صدیق اکبر رضہ،فاروق اعظم رضہ ،سیدنا عثمان غنی رضہ ،حیدر قرار رضہ ،خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضہ ،اذکار حسین رضہ ،قرآنی صداقت،غوث اعظم ،ہندودھرم اور قربانی اور توحید اسلام جیسی کتب شامل ہیں ۔10اپریل1950ءکو سندھ کے اس عظیم مجاہد نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔انہیں سکھر کے آدم شاہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے(آمین )