بچوں کی تعلیم اور تربیت تحریر : انجینیئر مدثر حسین

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ چند باتیں قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا
جس معاشرے ہم رہتے ہیں اس میں بچے تب تک والدین پر انحصار کرتے ہیں جب تک وہ خود کمانے لائق نہیں ہوجاتے۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں تو روزگار کمانے کے بعد بھی انکی زندگی کے فیصلے والدین ہی کرتے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ والدین اپنے بچوں کے بارے میں جو سوچیں گے وہ بہترین ہوگا کیونکہ والدین ہی ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی زیادہ خوشحال زندگی گزارے اور بہترین مقام پائے۔

یہ بات بہت غور طلب ہے کہ اکثر والدین بچوں کی تعلیم کے فیصلے میں ایک غلطی کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ بچے مستقبل میں بھگتتے رہتے ہیں ۔ اگر کسی کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنتا ہے تو والدین کی خواہش ہوتی کہ انکا بچہ بھی ڈاکٹر یا انجینئر ہی بنے میرے خیال میں یہ درست نہیں
بے شک اللّہ تعالٰی نے دماغ ضرور ایک جیسا دیا ہے مگر اسکو استعمال کرنے کا طریقہ ہر انسان کا مختلف ہے۔ یاد رکھیں بچے کا ذہن بننے میں آپ کی سوسائٹی اور اردگرد کے لوگوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے کا دماغ ویسے ہی تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے جیسے وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔
اگر ایک بچے کی دلچسپی اکاؤنٹنگ میں ہے تو اسے سائنس کے مضامین بہت مشکل لگیں گے۔ اسکی تازہ مثال میرے دوست کا بیٹا ہے جس نے چند دن پہلے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ میں ڈاخلہ بجھا اور وہ بہت محنت سے تیاری بھی رہا تھا۔
کل اچانک میرے سامنے آ گیا ابتدائی سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا بیٹا سناو تمہاری پڑھی کسی چل رہی ہے ۔
میرا سوال سن کر وہ پریشان سا ہو گیا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا اس کے ابو نے اسے کہا ہے کہ اب تم میڈیکل کالج میں اپنا داخلہ بجھو اور میڈیکل کالج میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کرو۔ تھوڑا پوچھنے پر معلوم ہوا کے اسکے ماموں کا بیٹا ڈاکٹر ہے تو اس وجہ سے ابھی اسکی والدہ بھی چاہتی کہ وہ بھی ڈاکٹر بنے۔

مجھے بچے کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اسے یہ فیصلہ منظور نہیں ہے۔ایک لمبی آہ بھرنے کے بعد بولا انکل میں نہ اب اس امتحان کی تیاری نہیں کرنی یہ ٹیسٹ مجھ سے پاس نہیں ہو گا۔نتیجہ کیا ہوا؟

بچے کا سال برباد ہو جائے گا اور وہ بچہ ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو گا ۔ اگر والدین پہلے اپنے بچے سے پوچھ لیتے کہ تم کیا بننا چاہتے ہو تو کتنا اچھا ہوتا۔ تعلیم کے معاملے میں بچوں پر اپنا فیصلہ زبردستی مسلط کرنا انتہائی غلط ہے اور مستقبل تباہ ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے ۔ عدم دلچسپی کے باعث فیل ہونے سے بہتر ہے اسے وہ امتحان دینے دیا جائے جو وہ پاس کرلے۔

تمام والدین سے گزارش ہے۔رزق تو اللّہ کے ہاتھ میں ہے اور کوئی تعلیم رائیگاں نہیں جاتی۔ اس لئے خدارا تعلیم کے معاملے میں پہلے اپنے بچے سے ضرور مشورہ کریں کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے اور کون سی ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کا حامی ناصر ہو
پاکستان زندہ اباد

@EngrMuddsairH

Leave a reply