بچوں کی تعلیم اور والدین کی زبردستی تحریر: عتیق الرحمن

0
26

ہمارے معاشرے میں بچے تب تک والدین پر انحصار کرتے ہیں جب تک وہ خود کمانے لائق نہیں ہوجاتے
یہاں تک کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں تو روزگار کمانے کے بعد بھی انکی زندگی کے فیصلے والدین ہی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بات بلکل درست ہے کہ والدین اپنی اولاد کے بارے میں جو سوچیں گے وہ بہترین ہوگا کیونکہ واحد والدین ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ انکی اولاد ان سے بھی زیادہ خوشحال زندگی گزارے اور بہترین مقام حاصل کرے
لیکن بچوں کی تعلیم کے فیصلے میں والدین اکثر غلطی کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ اولاد پھر مستقبل میں بھگتتی رہتی ہے۔ معاشرے کو دیکھ کر یا کسی کا بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بنتا دیکھ کر والدین کی خواہش ہوتی کہ انکا بچہ بھی ڈاکٹر یا انجینئر ہی بنے جو کہ ایک غلط راستہ ہے
اللّہ نے سب کو دماغ ضرور ایک جیسا دیا ہے مگر اسکو استعمال کرنے کا طریقہ ہر انسان کا مختلف ہے اور بعض و اقات اس کے ذہن بننے میں اس سوسائٹی اور اردگرد کے لوگوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے جہاں وہ رہتا ہے۔ اسکا دماغ ویسے ہی تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے سوچنے کے زاویے سے جیسا وہ دوسروں کو دیکھتا ہے
اب ایک بچے کی دلچسپی اگر اکاؤنٹنگ میں ہے تو اسے سائنس کے مضامین بہت مشکل لگیں گے۔ اسکی تازہ مثال میرے سامنے ایک روم میٹ ہے اور وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ میں ڈاخلہ بجھوا چکا اور بھرپور تیاری سے پڑھ بھی رہا تھا کہ اچانک اسے گھر سے کال آتی ہے
وہ فون کے بعد پریشان دکھائی دیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا اس کے گھر والے اب اسے میڈیکل کالج میں داخلے کا کہہ رہے اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے کہ جو داخلہ بجھوایا ہے اسے وہیں چھوڑ دو اور میڈیکل کالج میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کرو۔ تھوڑا پوچھنے پر معلوم ہوا کے اسکے ماموں کا بیٹا ڈاکٹر ہے تو اس وجہ سے ابھی اسکی والدہ بھی چاہتی کہ وہ بھی ڈاکٹر بنے جو کہ اس لڑکے کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اسے یہ فیصلہ منظور نہیں اور وہ کہہ رہا تھا کہ میں نہ اب اس امتحان کی تیاری کرنی ہے جس کا داخلہ بجھوایا اور نہ ہی یہ ٹیسٹ مجھ سے پاس ہونا ہے
نتیجہ کیا ہوا؟ سال برباد ہجائے گا اور وہ بچہ ذہنی دباؤ کا شکار بھی۔ اگر والدین پہلے اس سے پوچھ لیتے کہ تم کیا بننا چاہتے ہو تو کتنا اچھا ہوتا۔ تعلیم کے معاملے میں بچوں پر اپنا فیصلہ زبردستی مسلط کرنا انتہائی غلط ہے اور مستقبل تباہ ہونے کا خدشہ ہوتا۔ عدم دلچسپی کے باعث فیل ہونے سے بہتر ہے اسے وہ امتحان دینے دیا جائے جو وہ پاس کرلے
رزق تو اللّہ کے ہاتھ میں ہے اور کوئی تعلیم رائیگاں نہیں جاتی۔ اس لئے خدارا تعلیم کے معاملے میں پہلے اپنے بچے کی ذہنی حالت کا تعین کرلیں کہ جس تعلیم کی ڈگری حاصل کرنے کا اسے کہا جا رہا ہے وہ اتنا قابل بھی ہے۔ یا پھر کسی فوجی کو بنا ٹریننگ یا بندوق پر محاذ پر لڑنے بھیج دیا جائے تو لڑنے کی بجائے خود بچنے پر زیادہ فوکس کرے گا
بچے کے تعلیمی مراحل کا انتخاب کرتے وقت اسکے ذوق کو مد نظر رکھیں . اپنی پسند یا کسی پیشے کی مالی منفعت کے باعث اسے زبردستی کے مضامین اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں . اپنے ذوق کے مطابق تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہمیشہ اپنے فن میں یکتا ثابت ہوتے ہیں ۔ اپنے فن میں یہ مہارت اور دلچسپی نہ صرف انہیں مالی مسائل سے دوچار نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ کام کر کے بھی ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں اور یہی ذہنی سکون انسان کا کل سرمایہ ہوتا ہے ۔

@AtiqPTI_1

Leave a reply