تھرپارکر:بچوں کی اکثریت غذائی قلت، کم وزنی اور بونا پن کی شکار

0
73

سندھ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی کے ماہرین اور طالبعلموں نے تھرپارکر کے سینکڑوں بچوں کا جائزہ لینے کے بعد وہاں کے بچوں کے حوالے سے پریشان کن رپورٹ جاری کی ہے-

باغی ٹی وی : جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ( جے پی ایم اے) کی تازہ اشاعت میں تھرپارکر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کا ایک مطالعہ سامنے آیا ہے اس میں بطورِ خاص تھرپارکر کے دوردراز اور غریب دیہی علاقوں میں بچوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اشاعت کے مطابق سال 2017 اور 2018 کے دوران تھرپارکر کی 4 تحصیلوں میں یہ سروے کیا گیا جس میں پانچ سال سے کم عمر کے 597 بچوں کا معائنہ کیا گیا۔ ان میں 299 بچیاں اور 298 بچے شامل تھے تمام بچوں کی اوسط عمریں 12 سے 23 ماہ تھی۔

قمری اور شمسی نظام دونوں ہی اللہ کے ہیں:ہمیں نئے سال کا آغازنیکیوں اورخیر سے کرنا…

حیرت انگیزطورپر485 بچوں میں بونا پن یا اسٹنٹنگ نمایاں تھی یعنی 81 فیصد بچے عمر کے لحاظ سے اپنے پورے قد تک نہیں پہنچ سکے تھے 112 بچوں میں ویسٹنگ یعنی ہڈیوں اور پٹھوں کا گھلاؤ کا عمل دیکھا گیا جو 18 فیصد تک تھ۔ اس کے علاوہ 342 یعنی 57 فیصد بچے اس عمر میں اوسط وزن سے کم وزن کے تھے۔

اگرچہ یہ تحقیق ایک سیمپل تحقیق ہے لیکن اس سے تھرپارکر میں بچوں کی نشوونما کی شدید کمی سامنے آئی ہے اس کی وجوہ بیان کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ ان خاندانوں کی اوسط آمدنی 6000 روپے ماہانہ سے کم نوٹ کی گئی ہے۔

بد زبانی کنٹرول کرنے کا زبردست فارمولا:عوامی مقامات پر گالم گلوچ کرنے پر جرمانہ…

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ماؤں کی جانب سے بچوں کو دودھ پلانے کا دورانیہ بھی کم تھا۔ اس کے علاوہ بچوں میں ڈائریا اور دیگر بیماریوں کو بھی اس کی وجہ بتایا گیا ہے۔

دوسری جانب طبی ماہرین نے پاکستان میں ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے مریضوں کی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ذیابیطس سمیت صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے صحت کا بجٹ فوری طور پر بڑھایا جائے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ان مریضوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو ذیابیطس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے اعضا بھی کٹوانے پڑ رہے ہیں۔

کراچی: سال نو پر ہوائی فائرنگ سے 16 افراد زخمی

گزشتہ ماہ کراچی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائبیٹک ایسویسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں تقریبا سالانہ دو لاکھ افراد ذیابیطس کی وجہ سے اپنے پیر یا دوسرے اعضا کٹوا رہے ہیں۔

ڈاکٹر باسط کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور ان میں سے پچاس لاکھ ایسے ہیں جنہیں اس حوالے سے طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 20 لاکھ مریضوں کو فٹ السر ہوجاتا ہے اور ان 20 لاکھ میں سے دو لاکھ کے قریب افراد کو اپنے پیر کٹوانے پڑتے ہیں جبکہ اس کی روک تھام ممکن ہے۔

پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ اعضا کٹوانے والے ان مریضوں میں سے 70 فیصد آپریشن کے پانچ سال کے اندرہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

Leave a reply