بچپن کی شرارت قسط 5۔ تحریر۔طلعت کاشف سلام

0
46

تنبیہ۔۔۔ یہ پڑھنے والے میرا اسٹنٹ آزمانے کی بلکل کوشش نہیں کریں۔
اب جو شرارت بتانے جا رہی ہوں اس وقت میری عمر شاید تیرا یا چودہ سال ھو گی۔
جیسا کے میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کے ھم لوگ ابوظہبی میں رہتے تھے اور گرمیوں میں پاکستان جایا کرتے تھے۔
میری بڑی بہن جو کے مجھ سے ایک سال بڑی تھی اسے ابو نے کہا تھا کے اس بار پاکستان جاو تو تھوڑی بہت کسی ڈرائیونگ اسکول سے گاڑی چلانا سیکھ لینا۔
اس لیے جب ھم پاکستان گئے تو میری بہن کو امی نے گاڑی سیکھنے کے لیے اسکول میں ڈال دیا۔ بہن جب بھی گاڑی چلانے جاتی میں اسکے ساتھ پیچھے بیٹھ جاتی۔اور ڈرائیورنگ ٹیچر کی باتوں کو غور سے سنتی رہتی۔ میری بڑی بہن گاڑی چلاتے ہوئے بہت ڈرتی تھی۔ اور میں اس وقت پیچھے بیٹھی سوچتی رہتی کے یہ کونسا مشکل کام ہے جو ثروت (میری بڑی بہن) اتنا ڈر رہی۔
خیر اس طرح کوئی ایک ھفتہ گزر گیا۔ میں نے آمی سے ضد کی کے مجھے بھی سیکھنا ہے۔ آمی نے ڈانٹ دیا کے تم ابھی بہت چھوٹی ھو۔
میں آمی کی بات سن کے اس وقت تو چپ ھو گئی۔ پر میری شرارتی فطرت نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا۔
زیادہ تر تو ھم سب بہن بھائی ہر وقت ساتھ ہی ھوتے تھے۔ اسلیے مجھے کافی دن تک تو کوئی موقع نہیں مل پایا۔ پر ایک دن دوپہر میں میرے بھائی سو رہے تو اس وقت مجھے خیال آیا کے بھائی اور آمی تو گاڑی چلانے دیتے نہیں ابھی موقع اچھا ہے آمی اور بھائی دونوں ہی سو رہے ہیں۔ تو کیوں نہ ان سے چھپ کے گاڑی چلائی جائے۔
میں نے اپنا پلان چھوٹی بہن کو بتایا۔ کیونکہ صرف وہ ہی تھی جو میرا ساتھ دے سکتی تھی بڑی کو بتاتی تو اس نے بھی ڈانٹ دینا تھا۔ چھوٹی والی جھٹ سے تیار ھو گئی۔
ھم دونوں لگے گاڑی کی چابی ڈھونڈھنے۔ جو کے کافی  ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں ملی۔
پھر چھوٹی بھائی کے کمرے میں گئی۔ اور اس وقت اس نے دیکھا کے چابی تو بھائی کی پینٹ کی جیب میں ہے، یہ دیکھنے کے بعد چھوٹی میرے پاس آئی اور مجھے بتایا کے اب کیا کریں۔
پھر ھم دونوں نے پلان بنایا کے کسی طرح جیب سے چابی نکالتے ہیں۔ میں بھائی کے کمرے میں گئی اور بڑی مشکل سے آھستہ آھستہ انکی جیب سے کسی طرح چابی نکال لائی۔

اسکے بعد ھم دونوں خوشی سے بھاگے باہر۔ اب یہ بات زہن میں رکھیں کے اس دن سے پہلے چلانا تو دور کی بات میں نے نہ تو کبھی چابی تک گاڑی میں نہیں ڈالی تھی۔
خیر ھم باہر آئے گاڑی باہر ہی کھڑی تھی۔ دونوں بیٹھے سن سن کے اتنا سمجھ چکی تھی کے گئیر کیسے ڈالتے ہیں۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور گیئر ڈالا تو جھٹکے سے بند ھو گئی۔ پھر اسٹارٹ کی اور پھر کوشش کی دو بار کی کوشش سے گاڑی چل پڑی۔ ھم دونوں بڑے خوش ھوئے۔ گاڑی کیونکہ کبھی سیکھی ہی نہیں تھی اسلیے گیئر والی گاڑی ھونے کی وجہ سے بار بار جھٹکے لیتی رہی۔ گیئر بھی دو سے زیادہ نہیں ڈالنے آتے تھے۔ اور اسی طرح ہچکولے لیتی گاڑی چلاتی رہی پورے اپبے علاقے کا چکر لگایا۔ کئی بار بند ھوئی دو جگہ تو ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
اور چکر لگا کے لا کے واپس کھڑی کر دی۔ واپس کھڑی ویسی نہیں کر سکی جیسے بھائی نے کھڑی کی تھی۔ میں نے ٹیڑھی پارک کی۔
اور ھمت دیکھیں کے چابی لا کے بھائی کی جیب میں واپس اندر بھی ڈالی اور انہیں سوتے میں پتہ تک نہیں چلا۔
لیکن۔۔۔۔
میں پھر بھی پکڑی گئی۔ چابی کی وجہ سے نہیں گاڑی غلط پارک کرنے کی وجہ سے اور محلے کی آنٹیوں کی وجہ سے۔
اففففف یقین کریں جب آمی سے محلے کی آنٹی نے پوچھا کے طلعت بھی گاڑی چلانے لگی۔ تو سارا پول کھل گیا۔ اور آنٹی نے یہ بھی بتایا کے تین بار بند ھونے کے بعد کتنی مشکل سے گاڑی چلائی تھی۔
پھر تو میری جو شامت آئی افففف۔ اور تو اور چھوٹی بہن بھی آمی کے ساتھ شامل ھو گئی اور امی کو کہا کے اس نے مجھے روکا تھا پر آپی زبردستی ڈانٹ کے مجھے لے گئی تھی۔
اس دن مجھے نہ صرف گرانڈ کیا گیا بلکہ خاصی جھاڑ بھی پڑی۔
ویسے اللہ کا شکر ہے کسی کو ٹکر نہیں ماری ورنہ یہ شرارت کافی نقصان کا باعث بن سکتی تھی۔ اب سوچتی ہوں کے اس حرکت سے کسی کی جان بھی جا سکتی تھی۔ پر جب نئی نئی جوانی ھو تو ان سب باتوں کا ہوش نہیں ھوتا۔
آپ سب بھی سوچتے ہونگے کے طلعت کتنی شیطان کی پڑیا تھی۔

@alwaystalat

Leave a reply