بدنام معاشرہ تحریر: رانا محمد جنید

0
34

کسی بھی معاشرے کی صحت کے لیے اس میں امانت، دیانت اور شرم وحیا کا پایاجانا بہت ضروری ہے۔ اور یہی عناصر کیسی معاشرے کی ترقی کا سسب بھی بنتے ہیں اور جب یہ عناصر کیسی معاشرے سے ختم ہو جاتے ہیں تو وہ معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے. جب کوئی قوم یا معاشرہ مالی اور بد فعلی کی راہ روی پہ چل پڑتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتا ہے اور قرآن مجید میں اس کی بہترین مثالیں موجود ہیں.

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ایل دوسرے کا حق چھین لیا اپنے لیے فخر کی بات سمجھا کرتی تھی اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کے ذریعے انہیں سراط مستقیم پہ آنے کی دعوت دی پر ان پر کوئی اثر نا ہوا، جس کے بعد اللہ پاک نے ان پر چمگادڑ کا عذاب نازل فرمایا اور اس قوم کو تباہ کر دیا.

ایسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جنسی راہ روی کا شکار تھی حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں اس چیز سے باز رہنے کی تلقین کی پر وہ اس برائی میں دھنستے چلے گئے پھر اللہ پاک نے فرشتوں کی ایک جماعت کو ان کی طرف انسانی شکل میں بھیجا اور قوم لوط نے اس کو بھی اپنی برائی میں شامل کرنا چاہا پر اس سے پہلے وہ کچھ کرتے اللہ پاک کے حکم سے فرشتوں نے پوری بستی کو الٹ کر زمین پہ دے مارا اور پھر آسمان سے پتھروں کی بارش کی جس سے قوم لوط ماری گئی اور حضرت لوط علیہ السلام اپنے ماننے والوں کو لے کر چلے گئے تھے

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فقط برائی کے ارتکاب سے نہیں روکا بلکہ برائی کے قریب تک جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتے ہیں:

”اور زنا کے قریب نہ جاؤ ‘ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بری راہ ہے”۔

ہمارا پیارے دین اسلام ہر ایک جاندار ہے حقوق سکھاتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کیسی دوسرے کے تو کیا انسان خود اپنی ہم جنس کو بھی اس کے حقوق دینے اور اس کی حفاظت کے لیے تیار نہیں

ہمارا معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اب یہاں ہر کوئی اپنی عزت کی پروا کرتا ہے اور دوسروں کی عزت کا خیال نہیں

یہاں پر عورت کو اب صرف ایک گوشت کا ٹکڑا سمجھا جاتا ہے جیسے اپنی حوس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کچھ بھی نہیں

حال ہی میں کچھ ایسے ہی واقعات ہمیں دیکھنے کو ملے جو روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے چاہے وہ قصور کی زینب ہو یا سانحہ موٹر وے، نور مقدم کیس ہو یا سانحہ منار پاکستان ان واقعات سے ہمارے معاشرے کی بس حالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے ہم کس طرف جا رہے ہیں

اگر ان واقعات کو نا روکا گیا تو ممکن ہے چند سالوں بعد ہر گھر میں زینب جیسی بچی کی عزت روند دی جائے گی.

ہم سب مسلمان ہیں اور ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں تو ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں ہر عمل کریں اور اپنے معاشرے سے برائی کو ختم کر سکیں

قرآن مجید برائی کو روکنے کے لیے چند اصول بیان کرتا ہے جو ہر ایک مسلمان کے لیے ضروری ہیں

مرد اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھیں

عورتیں اپنی نگاہوں کو جھکائیں اور اپنے وجود کو ڈھانپیں۔

بے نکاح لوگوں کا نکا ح کیا جائے۔

کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لی جائے۔

ظہر اورعشاء کے بعد اور فجر سے پہلے گھریلو کمروں میں ملازم اور بچے بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں۔

تہمت لگانے والوں کو سخت سزا دی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے والدین، اساتذہ، علماء کرام اور ریاست کا فرض بنتا ہے کے وہ اس برائی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں

والدین اپنے بچوں کی اچھی طرح سے پرورش کریں اور انہیں ہر برائی اور اچھائی میں فرق کرنے کا بتائیں اور ان کی مصروفیات ہر نظر رکھیں

اساتذہ کو چاہیے کے وہ اہنا نظام تعلیم اس طرح کا بنائیں کے جو برائی کے خاتمے کا سبب بنے ناکہ اس کو اور زیادہ ہوا دے، اور بچوں کو اس برائی کے مثبت نتائج سے آگاہ کریں

اور یہاں ریاست کا اہم کردار ہوتا ہے کے فحاشی پھیلانے والے ذرائع بند کرے اور وہ اسے قانون بنائے جن میں ملزمان کو جلد از جلد اس کے گناہوں کی سزا دی جا سکے تاکہ دوسرے ان اے عبرت حاصل کریں

اگر مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کر لیا جائے تو یقینا معاشرہ طاہر اور مطہر معاشرے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو برائی سے بچ کر شرم وحیا والی زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،
آمین !

 

@Durre_ki_jan

Leave a reply