بددعائے محبت تحریر: بسمہ ملک

0
35

(گزشتہ کیساتھ پیوستہ )

میں خوش تھی کہ میں نے اپنا انتقام لے لیا چھ ماہ بعد میری شادی ہونے والی تھی میں اور سعد پہلے کی طرح ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے تھے میں بھول چکی تھی کہ سعد نے مجھے گردہ دینے سے انکار کیا تھا
عادی کو گئے پانچ ماہ ہوئے تھے میں بھی اس کو بھول کر اپنی دنیا میں مست تھی کہ ایک دن فون آیا کہ عادی کوہاٹ اٹیک آیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے مجھے اس خبر سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا امی اور ثمرین اس کو دیکھنے گئی تھی دوسرے دن ثمرین نے مجھے فون کیا اور کہا عادی بھائی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں میں نے صاف انکار کردیا
ثمرین نے میری منت ترلے کیے اور یہ بھی کہا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ ان کی خیریت پوچھ کر فون بند کر دینا
شاید کچھ کہنا چاہ رہے ہوں آپ سے ۔۔۔؟
مجھے کوئی ضرورت نہیں اس سے بات کرنے کی میری بلا سے وہ مرے یا جئے۔
میں نے بے حسی سے کہا اور ثمرین کے کچھ بولنے سے پہلے ہی فون بند کر دیا
کچھ دیر بعد ثمرین کے نمبر سے میسج آیا تھا میںسج عادی نے کیا تھا
میرے تے مر داروں سے
مسیحا جب یہ کہہ دیں گے
دعا کا وقت آپہنچا
یہ بیماری بہانہ تھی
قضا کا وقت آ پہنچا
تو کیا تم اتنی بے حس ہو
یقین اس پر نہ لاؤ گی ؟؟
تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مجھے ملنے نہ آ وگی؟؟؟؟

نیچھے عادی کا نام لکھا تھا میں نے فورا ڈیلیٹ کردیا اور بھاڑ میں جاو لکھ کر ریپلائی سینڈ کر دیا جواب پڑھ کر اس کی جو شکل ہوئی ہوگی سوچ کر میں ہنس پڑی تھی اگلے دن صبح میرے فون کی بیل سے میری آنکھ کھلی
اتنی صبح کو فون کر رہا ہے؟ میں نے بے زاری سے سوچتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور بمشکل ذرا سی نیم آنکھیں کھول کر نمبر دیکھنے کی کوشش کی ثمرین کا نام پڑھتے ہیں مجھے غصہ آ گیا تھا مجھے یقین تھا کہ فون عادی کر رہا ہوگا یا اس نے ثمرین سے کہا ہوگا کہ فون کر کے میری بات کرادؤ اتنی دیر میں فون خاموش ہو گیا تھا میں نے شکر ادا کیا اور کروٹ بدل کر پھر سونے کی کوشش کرنے لگی
موبائل ایک بار پھر بج اٹھا میں نے غصے سے موبائل اٹھایا اور یس کا بٹن پریس کرتے ہی بےزاری سے بولی
ثمی کیا مسئلہ ہے تمہیں؟
اپی۔۔۔۔ عادی فوت ہوگئے ہیں،
ثمرین روتے ہوئے بمشکل اتنا ہی کہا تھا
میری نیند غائب ہو گئی شاید مجھے ایسے خبر کی توقع نہیں تھی مجھے ذرا سا دکھ سا ہوا میں کمبل لپیٹ کر سونے کی کوشش کی کی مگر نیند نہیں آئی تو میں نے اٹھ کر منہ دھویا یا اور ناشتہ بنانے لگی
ابو کو اطلاع مل چکی تھی اور وہ عادی کے گاؤں جانے کی تیاری کر رہے تھے ابو نے مجھے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو مگر مجھے ایسے رونے کے موقع سے الجھن ہوتی تھی
میں وہاں کیا کروں گی؟
ابو آپ لوگ چلے جائیں
میں نے انکار کر دیا
مجھے تھوڑا دکھ ضرور ہوا تھا مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ میں دل پہ لے لیتی
ابو لوگ 3 دن بعد واپس آئے تھے
ثمرین نے آتے ہی مجھ سے شکوہ کیا تھا اپی اپ نے اچھا نہیں کیا
عادی بھائی کے ساتھ
اگر ان سے بات نہیں کی تو کم از کم ان کے مرنے پر ہی آ جاتی
ان سے ایسی بھی کیا ناراضگی تھی کہ آپ کی ۔۔؟
اس کی آواز سے لگ رہا تھا جیسے وہ روتی رہی ہے
میرے جانے سے کونسا اس نے زندہ ہو جانا تھا
میں نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا
آپ کے جانے سے وہ زندہ تو نہیں ہو سکتے تھے البتہ اگر اپ ان سے بات کر لیتی تو شاید وہ زندہ ہی رہتے
میں نے اسے مارا ہے کیا۔۔۔؟
ثمرین کے جواب پر مجھے غصہ آ گیا تھا
ہاں اپی آپ نے ہی ان کو مارا ہے اس انسان کو جس نے آپ کی زندگی بچائی تھی
کیا مطلب۔۔۔؟
ثمرین کے جواب پر میں نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا
اپی آپ بھی آپ کو معلوم ہی نہیں کہ جس سے آپ نے آخری وقت بھی بات کرنا گوارا نہیں کیا اور جس سے آپ سب سے زیادہ نفرت کرتی تھی اسی عادی بھائی نے آپ کو اپنا ایک گردہ دیا تھا
کک کیا۔۔؟؟؟
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا
مجھے شدید حیرت ہوئی تھی بے یقینی سے میں ثمرین کا منہ تکنے لگی
مجھے لگا شاید ثمرین جھوٹ بول رہی ہے۔؟
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ثمی؟
تت تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟
میں اس وقت دکھ، حیرت اور بے یقینی کے ملے جلے سے احساس میں ڈوبی ہوئی تھی
یہ بات ابو اور میرے سوا کوئی نہیں جانتا
ثمرین نے کہا
عادی بھائی نے ہم دونوں سے وعدہ لیا تھا کہ یہ بات اپ سمیت کسی کو بھی نہ بتائی جائے
ثمرین کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی
مجھے لگا جیسے کوئی میرا دل ارے سے کاٹ رہا ہو
آنکھوں میں آنسو کی وجہ سے ثمرین کا چہرہ دھندلانے لگا تھا
شاید یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے محبت کی بددعا لگی تھی
اس بے لوث محبت کی بددعا جس کا میں نے ہمیشہ مذاق اڑایا تھا
اور زندگی میں پہلی بار لڑکی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
پانچ سال گزر چکے ہیں مگر میرے دل کو صبر نہ آیا نہ قرار ایا
پچھتاوا مجھے کھائے جا رہا ہے ان پانچ سالوں میں ان گنت بار میں عادی کی قبر بھی پہ جا کے معافی مانگ چکی ہوں
مگر میرے دل کو سکون نہیں ملا شاید عادی نے مجھے معاف نہیں کیا کیونکہ میں نے جب اس پر بہتان لگا کے گھر سے نکلوایا تھا تو جاتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ” نوشی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا ”
میں جب بھی اس کی قبر پر جاتی ہوں ہو اس کی پسند کے سرخ گلاب لے کر جاتی ہوں
میری خواہش ہے کاش وہ بھی میری طرح میرے لائے پھول توڑ کر پھینکے اور مجھے کہے یہاں سے چلی جاؤ مجھ سے نفرت کا اظہار کرے
میں افف تک نہیں کروں گی بس
ایک بار وہ مجھے معاف کر دے
بس ایک بار
میں نے سب کی مخالفت کے باوجود منگنی توڑ دی تھی اور آج تک شادی نہیں کی اور نہ کبھی کروں گی اب اندھیرے میرے مقدر ہیں
روشنی کے دلدادہ لڑکی کو اب اندھیرا اچھا نہیں لگتا ہے
میں جانتی ہوں کے عادی کی قاتل میں ہی ہوں
مجھے یاد ہے عادی نے ایک بار ہارٹ اٹیک کی تشریح کی تھی کی اس نے کہا تھا کہ جب کسی انسان کو مسلسل دل پہ زخم لگتے ہیں تو اس کا دل کمزور ہو جاتا ہے اور جب مزید قوت نا رہے تو کوئی ایک بات یا الفاظ دھچکے کی صورت دل پہ لگتی ہے اور دل دھڑکنا بھول جاتا ہے
لوگ کہتے ہیں اسے ہارٹ اٹیک آگیا
وجہ نا کوئی جانتا ہے نہ جاننے کی کوشش کرتا ہے
اس نے ٹھیک کہا تھا میرے راویے نے اسے مارا ہے اور جب اسپتال میں اس نے مجھ سے بات کرنا چاہے تو میں نے انکار کر دیا تھا
شاید اسی بات نے اس کو مار دیا ہو
میں خود کو اس کی قاتل سمجھتی ہو اور اس کی سزا مجھے بے سکونی تنہائی اور پچھتاوے کی صورت مل رہی ہے
ایک اذّیت مسلسل ہے
جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے
عادی نے کئی بار کہا تھا کہ کزن یار کچھ بھی کر مگر تکبر نہ کیا کرو
اللہ سے ڈرو ۔
تکبر صرف اللہ کی ذات کو ہی جچتا ہے
کائنات کا سب سے پہلا گناہ تکبر ہی تھا
جس نے فرشتوں کے سردار کو قیامت تک کیلئے ملعوون بنا دیا ہے
وہ بھی خود کو افضل سمجھ بیٹھا تھا وہ آگ سے بنا تھا اس نے آدم علیہ السلام کو مٹی کا سمجھ کر حقیر جانا اور سجدے سے انکار کر دیا
عادی نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔
کاش میں اس وقت اس بات کو سمجھ لیتی اور اسے انسان ہی سمجھتی تو پچھتاوا میرا مقدر نہ ہوتا
کاش وہ ایک بار اکر اپنے مخصوص انداز میں کہے
"کزن یار”
کیوں پریشان ہو؟؟؟
اور مجھے گلے سے لگا کر کہے
اب میں آگیا ہوں
سب ٹھیک ہو جائے گا
اور میں اس کے گلے سے لگ کر اتنا رہا ہوں کہ میرا سانس تھم جائے
پھر وہ مجھے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ ہی لے جائے
اب عجیب ہی سہی
مگر یہ میری آخری خواہش ہے
(ختم شدہ )

Leave a reply