چوری شدہ اثاثوں کی آ سانی سے واپسی یقینی بنانے کیلئے چیئرمین نیب متحرک

0
24

چوری شدہ اثاثوں کی آ سانی سے واپسی یقینی بنانے کیلئے چیئرمین نیب متحرک
چئیرمین نیب جسٹس جاویداقبال نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس کے انعقاد کا خیرمقدم کرتے ہیں،

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے بدعنوانی کے خلاف کنونشن کے بعد یہ پندرہواں سال ہے،اس عرصے کے دوران کچھ پیشرفت ہوئی تاہم دنیا بھر میں بہت سی جگہوں میں بدعنوانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور لوگوں کو ان کے حقوق سے دور رکھنے میں جاری رہی ۔ مالی احتساب، شفافیت اور دیانتداری سے متعلق اعلی سطحی پینل کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ سیاسی اور سرکاری بدعنوانی،جرم اورٹیکس چوری کی وجہ سے ہر سال، کھربوں ڈالر ہر ترقی پذیر ممالک سے باہر منتقل کئے جاتے ہیں ۔مالیاتی ”ہیون” ممالک اور ان کے دائرہ اختیارمیں سات کھرب ڈالر چوری شدہ اثاثہ جات موجود ہیں۔ترقی پذیر ممالک سے ان وسیع وسائل کی جنگ ان ممالک کی ترقی پذیری، غربت، عدم مساوات اور سیاسی عدم استحکام کی ایک بنیادی وجہ ہے، دنیا میں کم از کم 2.6 ٹریلین ڈالر سالانہ بدعنوانی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جو کہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا لگ بھگ 5 فیصد ہے، ایک تخمینہ ہے کہ ترقی پذیرممالک کے ہرسال بدعنوانی ، رشوت ستانی، چوری اور ٹیکس چوری کے باعث 1.26 ٹریلین ڈالر نقصان ہورہے ہیں۔ یہ سرکاری ترقیاتی معاونت فنڈ سے نو گنا زیادہ ہے۔

بدعنوانی کے خلاف عالمی سطح پر جنگ کو تقویت دینے کے لئے بین الاقوامی تعاون کو موثر اور مستحکم بنانا ضروری ہے،اس کے ساتھ ہی بدعنوانی کو روکنا، کھوج لگانے، تفتیش کرنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے علاوہ بھاری جرمانے اورمجرمانہ اثاثے ریکور کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں امن، سلامتی قانون کی حکمرانی ،پائیدار ترقی اور انسانی حقوق کا احترام اور انفرادی آزادیوں کو برقرار رکھنا بنیادی شرط ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح پرعزم کا بھی لازمی جزو ہے کہ غربت کے خاتمے، غیر قانونی مالی بہاؤ کو روکنے اور تمام لوگوں کی امن اور خوشحالی تک رسائی کویقینی بنایا جائے۔پاکستان عالمی سطح پر بدعنوانی کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کیلئے بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی اہمیت میں اضافے پر خوش ہے۔ہم بدعنوانی کے خلاف جنگ کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ ہر قسم کی بدعنوانی کو ہر سطح پر ہر صورت میں روکنے کو رواج دیناچاہئے۔انہوں نے کہا کہ یو این سی اے سی کے تحت اثاثوں کی ریکوری ایک بنیادی اصول ہے۔یہ پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ یو این سی اے سی کی شقیں واضح ہونے کے باوجودلگتا ہے کہ اثاثوں کی بازیابی اور آ بائی ممالک کو ان کی واپسی کے عمل میں رکاوٹیں اور چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بڑھتی ہوئی تشویش یہ ہے کہ سیاسی عزم کا فقدان ہے،غیر ضروری تاخیر، طریقہ کار کی پیچیدگیاں، نوکر شاہی رکاوٹیں درخواست دہندہ ممالک میں قانونی رکاوٹیں،اثاثوں کی بازیابی کی پر بھاری لاگت جیسے مسائل کے تناظر میں اثاثوں کی ریکوری کے لئے موئثربین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔چئیرمین نیب نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ واپس کئے گئے اثاثوں کا انتظام،انتظامیہ اور اسے بروئے کار لانے کا حق اور ذمہ داری آبائی ملک کی ہے۔درخواست کرنے والے ملک کو برآمد شدہ اثاثوں کوغیرمشروط اور خودمختار ی کے حقوق کا مکمل احترام کرتے ہوئے واپس کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی چیلنجوں کے تناظر میں نئے وعدوں کی فوری ضرورت ہے جو جرات مند، واضح اور ٹھوس ہوں۔ رکن ممالک کو بدعنوانی کی روک تھام اور استثنٰی کے خاتمے کے لئے موجودہ بین الاقوامی فریم ورک کو مستحکم بنانے کے لئے جدید نظریات پر فعال طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ خصوصی اجلاس ہم سب کے لئے ترجیحی شعبوں کے تعین کرنے کا بہترین موقع ہے۔ان میں چوری شدہ اثاثوں کی فوری واپسی، مالیاتی اداروں، وکلاء،اکاؤنٹنٹ، بدعنوانی کے معاون، جرم اورٹیکس کی چوری پر بھاری جرمانے،کمپنیوں کی بینیفیشل ملکیت کا انکشاف، عالمی کم از کم کارپوریٹ ٹیکس،منصفانہ ڈیجیٹل ٹیکس لگانا، غیر مساوی سرمایہ کاری کے معاہدوں کا جائزہ اور نظر ثانی اور اقوام متحدہ کے تحت غیر قانونی مالی بہاؤ کی نگرانی کے لئے ایک مربوط، شفاف اور جامع طریقہ کار اپنانا شامل ہے۔یو این جی اے ایس ایس کے مذاکراتی ادارے نے قابل قدر اور جدید خیالات پیش کیے ہیں جس کا ایف اے سی ٹی آئی کی پینل رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے۔اور ان کی اقوام متحدہ کے مشترکہ پوزیشن پیپر کیلئے سفارش کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض تجاویز پر تفصیلی غور ضروری ہے جوکہ یو این جی اے ایس ایس کے سیاسی اعلامیہ کے لئے مذاکرات میں ممکن نہیں ہوسکا۔ اس وجہ سے، جنرل اسمبلی ضمنی فریم ورک کی جامع اور تکنیکی سفارشات کی تیاری کے لئے بین الحکومتی ورکنگ گروپ کے قیام پر غور کر سکتی ہے۔جس میں یو این سی اے سی خامیوں کے ختم کرنے کے لئے اضافی پروٹوکول کے امکان سمیت چوری شدہ اثاثوں کی آ سانی سے واپسی یقینی بنائی جاسکے۔ اس ورکنگ گروپ کی تجاویزرکن ممالک کی یو این سی اے سی کانفرنس میں غور کیلئے پیش کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصدکے حصول کے لئے پاکستان کی بدعنوانی کے خاتمے کے لئے وابستگی واضح اور مضبوط ہے۔ ہم نے بدعنوانی پر قابو پانے اور اس سے نمٹنے کے لئے جامع قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک قائم کیا ہے۔ ہم نے یو این سی اے سی کے تناظر میں بہتری کے لئے ادارہ جاتی صلاحیت اور ملکی قوانین کو عالمی معیار اور اقدار کے مطابق بنانے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ ہر قسم کی بدعنوانی کے خاتمے میں پارلیمنٹیرینز کے کر دار میں اضافہ ہوا ہے۔اس موضوع پر دسمبر 2019میں ابو ظہبی میں یو این سی اے سی کے ممالک کی آ ٹھویں کانفرنس میں پاکستان کی قرار داد متفقہ طور پرمنظور کی گئی۔انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کے ذریعے بدعنوانی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کافیصلہ قابل تعریف ہے۔امیدہے کہ اس اجلاس کے دوران بات چیت اور سیاسی اعلامیہ عالمی سطح پرکرپشن کے خلاف جنگ میں نیا جوش و جذبہ پیدا کرے گا۔

Leave a reply