بغداد کی بربادی اور ہم تحریر:حبیب الرحمٰن خان

0
45

تاریخ بتاتی ہے کہ ابوجعفر بن المنصور نے سن 762 میں بغداد کی بنیاد رکھی اور پھر چند ہی دھاہیوں میں اس شہر نے اتنی ترقی پائی کہ برصغیر سے لے کر افریقہ تک کے صاحب ہنر و علم بغداد دیکھنے کے لیے بے چین ہو گۓ
اور بغداد بھی ایسے صاحب علم کے لیے بے چین رہتا اور باکمال شخصیات کی کتابوں کو ہیرے جواہرات سے تولا جاتا
بغداد میں عظیم الشان مساجد اور مدارس تعمیر کیے گۓ۔
اس شہر نے باکمال شخصیات سے محبت کا شرف حاصل کیا جن میں فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ
عظیم کیمیا دان جابر بن حیان
الجبرا کے عظیم بانی الخوارزمی
فلسفے اور حکمت کے دو عظیم نام الکندی اور الرازی
مشہور مفکر الغزالی، عربی کے مشہور شاعر ابو نواس، تاریخ دان طبری اور کئی عالمِ دین اسی شہر کے باسی تھے
لیکن اس شہر کی بربادی کا سبب بھی مسلمانوں کے آپس کے باہمی اختلاف ، تفرقہ بازی اور زاتی مفادات تھے
کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کا پچاس دن مسلسل محاصرہ کیے رکھا اس وقت بغداد کے پاس دنیا کے مضبوط ترین قلعے تھے لیکن دل اور ایمان کی ناپختگی نے ان قلعوں کی مضبوطی کو پاش پاش کر دیا۔
تاریخ خلافت عباسیہ کے خاتمے کی تاریخ کچھ اس طرح رقم کرتی ہے ہلاکوخان نے محاصرے کی ابتداء 29 جنوری 1258   کو کی اور محاصرہ کا اختتام 10 فروری 1258 کو ہوا
اس وقت خلافت عباسیہ کے سربراہ مستعصم باللہ انتہائی کمزور انسان تھا جب وزراء کے مشورے کے ساتھ وہ ہلاکو خان سے مزاکرات کے لیے گیا تو اپنے ساتھ اپنی اولاد، وزیر بھی ساتھ لے کر گیا
خلیفہ کے سوا سب کو قتل کر دیا گیا اور منگولوں کی فوج نے شہر میں داخل ہو کر سامنے آنے والے ہر شخص کو تہہ تیغ کر دیا ایک ہی دن میں ہزاروں افراد شہید ہو گۓ ۔ خلیفہ کو قتل نہ کرنے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ منگولوں کے عقیدے کے مطابق بادشاہ کا خون بہانا بد شگونی سمجھا جاتا تھا سو ہلاکو خان نے خلیفہ مستعصم باللہ کو باندھ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑاۓ تاکہ خون نہ بہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد کی بربادی کی اہم وجہ مراکش اور ایران کا خلافتِ عباسیہ کا ساتھ نہ دینا تھا
الغرض بغداد کو ایسے تباہی کیا گیا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی
لیکن اس بربادی میں مسلمانوں کا اپنا حصہ زیادہ تھا علم و فن سے منہ موڑ لیا گیا بادشاہ عیش و عشرت کے دلدادہ ہو گۓ جس سے معاشرے کی ترقی پر جمود طاری ہو گیا اور عوام نے لاپرواہی اختیار کر لی
کیا آج ہم بھی اسی ڈگر پر نہیں چل رہۓ؟
کیا ہمارے وزراء مشیران عیاشیوں کے بے پناہ دلدادہ نہیں ہو گۓ اور
کیا ہم (عوام) بھی لاپروا نہیں ہو گۓ
اور کیا ہماری بربادی کا وقت بھی قریب نہیں آ گیا (خدانخواستہ)
کیا ہمیں اپنے حکمرانوں کو راست پر لانے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرنے چاہیں اور کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کرنے سے چشم پوشی اختیار کر لینی چاہیے
سوچئیے گا
اور مناسب سمجھیں تو آنکھیں کھلی رکھ کر شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کریں
#حبیب_خان

Leave a reply