ہم ہر روز سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ہیں اور کرپٹ کہتے ہیں لیکن میرا ماننا ہے کہ کرپٹ ہونے کیلئے لازم نہیں سیاستدان ہونا، بحثیت قوم ہم سب لوگ کرپٹ ہیں بس ہمیں جس جگہ جتنا موقع ملتا ہے ہم کرپشن کرتے ہیں۔۔۔
میں نے جب سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کرپشن میں لت پت دیکھا تو سوچ میں پڑھ گیا کہ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے لیڈرز کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، فراڈ کرتے ہیں، مالی لٹیرے ہیں، منافقت کرکے ایک ڈبکی لگا کر پاک صاف بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔
دوستو غور کریں تواصل میں سارا قصور ہمارا ہے، کرپٹ ہم ہیں، جھوٹ ہم بولتے ہیں، فراڈ ہم کرتے ہیں، دھوکہ ہم دیتے ہیں، دودھ میں پانی اور پاؤڈر ہم ملاتے ہیں، دوائیوں تک میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں، گردے ہم چوری کرتے ہیں، یہاں تک کہ قبروں سے ہڈیاں تک نکال کر بیچ جاتے ہیں۔۔۔
بحیثیت ڈاکٹر ہسپتال اور پرائیویٹ میں رویے الگ الگ رکھتے ہیں، بحیثیت استاد وقت کی پابندی نہیں کرتے، بحیثیت آفیسر بد دیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں، بحیثیت بوس غریب کو دباتے ہیں، پرائیویٹ سکولوں میں دھوکہ دیتے ہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی بجائے بزنس سمجھ کر ڈیل کرتے ہیں۔۔۔
حکومتی محکموں میں رشوت اور سفارش کے بغیر کام نہیں کرتے، غریب کو پھیرے لگاتے ہیں، محکموں میں سیاسی تقرریاں اور تبادلے کرواتے ہیں، پھر کام صرف سیاسی محسنوں کو دیتے ہیں۔۔۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں عزت کا معیار پیسہ ہی ہے، کوٹھی کار والے کو بڑا سمجھتے ہیں، غریب سے منافقت کرتے ہیں، برادریوں کا جینا حرام کر دیتے ہیں، دکھاوے کی نمازیں اور بے وضو جنازے پڑھتے ہیں۔۔۔
جنازوں پر ثواب کی نیت چھوڑ کر منہ دکھانے پر زور ہوتا ہے، کسی بیمار کی عیادت پر جاتے ہیں تو مکان اور کھانے پینے پر زور ہوتا ہے، فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں تو سو سالہ پلان ڈسکس کرتے ہیں، قبر کی فکر کی بجائے رنگ روغن پر دھیان ہوتا ہے۔۔۔
میرے عزیز ہم وطنوں جب اس طرح کا میں ہوں تو میرا لیڈر بھی میرے ووٹ سے بنے گا نا، وہ بھی میری طرح ہوگا نا، میں خود اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوں تو لیڈر بااخلاق کیسے ہو گا، جب میں دھوکہ باز ہوں تو ایسا ہی لیڈر چنوں گا نا تو گلہ کس سے شکوہ کس سے اور شکوہ کیوں۔۔۔؟
ہمارے پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر اگر غریب کا خون چوس سکتے ہیں، ہمارے پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ قانون کے رکھوالے اگر غریب کا خون چوس سکتے ہیں، ہمارے پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ تعلیم کو کاروبار بنا سکتےہیں، ہم پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ کامرس کی تعلیم رکھنے والے مزدور کا خون چوس سکتے ہیں۔۔۔
اسکے باوجود سب سے زیادہ کرپٹ ہم خود ہیں پٹواریوں کی صورت میں، نیب قاصد کی صورت میں، منشی کی صورت میں، ڈاکٹر کی صورت میں، نرس کی صورت میں، لیبارٹری کے ٹیسٹ کرنے والوں کی صورت میں وکیل کی صورت میں اور انکے فوٹو کاپی منشی حضرات کی صورت میں، تعلیم کی صورت میں، پرائیویٹ اداروں کی صورت میں، فیس زیادہ سے زیادہ رکھنے والوں کی صورت میں، تنخواہ کم دینے والوں کی صورت میں، میڈیا کی صورت میں ہم سب کے سب کرپٹ ہیں۔۔۔
پھر بھی ہماری عوام کی اکثریت اس بات پر پریشان ہے کہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں، ہماری عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا وغیرہ۔۔۔
مطلب کوئی بھی ملکی ادارہ جھوٹ اور کرپشن سے پاک نہیں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ ان سب کی وجوہات کیا ہیں۔۔۔؟ ہمارا دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اور خوف خدا کا نہ ہونا ہے۔۔۔
ہمارے معاشرے کا اسلام پسند محبت وطن خوف خدا رکھنے والا مخلص طبقہ فقط خود تک یا وعظ و نصیحت تک محدود ہوگیا ہے۔ جبکہ موجودہ دور میں اس طبقہ کی عملی طور پہ ملک کو ضرورت ہے کہ خود کو دنیاوی علوم و فنون سے آراستہ کریں اور اپنے خلوص اور قابلیت کو لے کے ملکی اداروں میں جائیں۔۔۔
انہوں نے اس میدان کو خود خالی چھوڑ کر لادین اور دشمن کے آلہ کار لبرل طبقے کیلئے راہ ہموار کی ہے۔۔۔ اسلئے اپنے ملک کو بچانے اور اسلام کے نام پہ حاصل کیے گئے اس ملک میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کیلئے ہمارے محب وطن اور دین پسند نوجوان نسل کو دنیاوی تعلیم کے میدان میں آگے آنا ہوگا۔۔۔
ہمارے لوگ بہت باصلاحیت ہیں مگر موجودہ نظام اور کرپشن کو دیکھ کے مایوسی کا شکار ہیں۔۔۔ ہمیں اس مایوسی کو ختم کرنا ہے ایک نئی امید اور لگن کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور پاکستان کو کرپشن سے، بددیانتی سے پاک کرکے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے حقیقی پاکستان بنانا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود اپنے آپکو ٹھیک نہیں کرلیتے۔۔۔
ت