بالا خانے کی ڈومنی ،از۔ م۔م۔مغلؔ

0
61

بالا خانے کی ڈومنی ،از۔ م۔م۔مغلؔ

تقسیم ابھی نہیں ہوئی تھی… ٹین کے کنستروں کی کھڑکھڑاہٹ اور موتیے کی خوشبو اولین حیض سے اٹھنے والی بُو سے یُدھ میں مصروف تھی… طبلے کی تھاپ اور سارنگی کی سنگت میں بستر کی سلٹوں میں گم ہوتا چرمُرایا ہوا گجرا اور تکیہ پر پھیلا کجلا ایک نئے کمہلائے ہوئے وجود کے ہمکنے کا منتظر تھا…

تقسیم کے بعد کوٹھے اور بالاخانوں کی تقسیم سے طبلے اور سارنگی کے وارثوں میں بدلے کی آگ نے جنم لیا… بالاخانے کے شودر لمس سے کسبِ لذت جاری رہا اسی دوران جنمے اس منحنی وجود نے جوبن پایا تو عنفوانِ شباب کی دہلیز پر پہلے رقص میں قسم کھائی کہ اجڑے بالاخانوں کو گھنگھروں کی لڑیوں میں پرو کر یکجا کر دکھائے گی تاکہ کسی طور طوائف الملوکی کی نشاۃ الثانیہ ہو سکے…

شودروں اور پانڈوؤں کی ریڑھ کی ہڈی کے تیسرے مہرے سے وجود پانے والی برہمن سپتری تاحال بدلے کی آگ میں جل رہی ہے… آوازے لگانے والوں دلالوں طبلچیوں سازندوں نے ماحول بنا رکھا ہے… برہمن سپتری نے کوٹھوں کے مکینوں اور کوٹھیوں کے پترکاروں میں اپنا اثر رسوخ ایسا بنا لیا ہے کہ وہ تاحال بوڑھی نائکہ کی بجائے ناکتخدا کہلاتی اور کسی نوخیز ہرن کی طرح قلانچیں بھرتی پھرتی ہے…

کوٹھے اجڑ جانے کے بعد روزگارِ روز و شب کا مرحلہ درپیش آیا تو ننھی کلی کے باپ نے اجڑے بالاخانوں کے مضافات میں لوہا کوٹنے کا کام شروع کیا اور مردِ آہن کہلایا… یوں زندگی کا پہیہ چلتا رہا کسی فلم کے پردے پر چلنے والی متحرک تصاویر کی طرح کم سنی کب جوانی کی دہلیز پر گمراہ ہونے پہنچ گئی اس بات سے بے خبر لوہا کوٹنے والا شودر اب لوہے کو پگھلانے والوں کی مِل میں برہمن کے منصب کو پہنچ چکا تھا…

مشقت کے ان لمحوں میں بے قاعدہ حیض سے مانگ بھری کی گود بھرائی بھی کسی ایسے ثانیے میں ہوئی جب ٹین کباڑ کی ہلکورے کھاتی سواری… بالا خانوں کی مسہریوں کو کوسنے دینے میں مصروف تھی… وقت کروٹیں لیتا رہا کوٹھوں کے مکین اب کوٹھیاں تج کر محلات میں سازشی نسلیں پیدا کرنے میں مصروف ہوگئے… ماضی کی طرف جھانکھیں تو قدیم بالاخانوں میں نوابوں اور سستے تماش بینوں کو دادِ عیش دیتے لمحوں میں بٹوے پوٹلیاں اور کرتے کی جیبیں محفوظ تصور کی جاتی تھیں…

مگر اس برہمن سپتری کو وہ ملکہ حاصل ہے کہ جنبشِ انگشت سے بالاخانوں کی تہذیب ہی بدل ڈالی… اب یہ جب چاہتی ہے نوابین معالجین معاونین مداخلین مصاحبین فولادین معادلین اور تماش بین قماش بینوں کے پوشیدہ لمحات کو اپنے تلذذ کی خاطر محفوظ کرتی پھرتی ہے… شنید ہے کہ لذت کے مناظر کے ذخیرہ کے سامنے عمروعیار کی زنبیل بھی دست بستہ ایک جانب ہو رہتی ہے…

لوہا پگھلانے والوں اور لوہا ڈھالنے والوں کی مخبریاں کرتے کرتے ایک دن بوڑھے لوہا کوٹنے والا اپنے ہی مالکوں کو غچہ دے کر فرار ہو چکا تھا… سنا ہے عادت سر کے ساتھ جاتی ہے… ادھر برہمن سپتری بدلے کی آگ میں تپ کر کندن ہوچلی تھی اور لوہا کوٹنے والے تازہ تازہ برہمن کو راستے سے ہٹا کر طاقت کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کو پر تولنے لگی… بوڑھا لوہا کوٹنے والا اپنی سپتری کے خوابوں کے سامنے ہار مان گیا اور خون تھوکنے کا بہانہ کر کے پرانے تماش بینوں اور نوابین کی سر زمین کو رخصت ہوگیا…

بالاخانوں کے قدیم اساطیری حوالوں پر اعتبار کیا جائے تو یہ برہمن سپتری ڈومنی کہلانے میں حق بہ جانب ہے… بالاخانوں کی سسکیاں جمع کرتی ڈومنی کے منھ کو تو جیسے خون لگ چکا تھا… دلالوں کنیزوں کی فوجِ مظفر موج جمع کرنے میں کتنی ہی بیسوائیں اور نرتکیاں اس کے قریب آنے لگیں… کچھ جمع جوڑ رودالیاں بھی کورس میں بین کرنے کی مشقوں میں مبتلا ہوگئیں…

جہاں کچھ پترکاروں نے اسے بے پناہ طاقت کے حصول میں اپنی خدمات پیش کیں وہیں کچھ پترکاراؤں نے اپنے تھرکتے جسم بھی طوائف الملوکی کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے پیش کیے… یوں ڈومنی کو طاقت کا نشہ مسرور کرنے لگا کہ جب چاہے ملکی راز افشا کرے یا ملک کے اعلیٰ اداروں پر بول و براز کرتی پھرے… اسے یقین تھا کہ سارے ہی پنڈت جوگی داشتائیں اور کنیزیں اس کے فکری بول و براز کو متبرک جان کر چومتے چاٹتے نوش کرتے پھریں گے…

رقص و سرور سے عیش کشید کرتے کرتے وقت گزرتا چلا گیا دن ہفتوں مہینوں اور برسوں میں سمٹتے گئے… تلبیس کاروں نے تلذذ کے ذخیرہ کو حواس پر طاری کرتے ہوئے ہمیشہ اس شودر برہمن ڈومنی کے سر پر ہاتھ رکھا… یوں مزید شہ پا کر اب یہ ڈومنی ملک کی نظریاتی جغرافیائی سرحدیں اپنے گھنگھروں سے پامال کرتی پھرتی ہے…

سنتے ہیں… کوئی گرج دار آواز گونجے گی… اس برہمن سپتری ڈومنی اور اس کے ہمنوا طبلچیوں دلالوں پھیری بازوں گجرا فروشوں عصمت خروشوں کے حلقوم… خود ان ہی کی مکروہ ترین آوازوں کے قبرستان بنادیے جائیں گے… گھنگھرو ٹوٹ جائیں گے…

@Mughazzal

Leave a reply