بلوچستان کو اس ملک کا ایک صوبہ تسلیم کیا جائے،سردار اختر مینگل

0
133
akhtar mengal

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) کے سربراہ ے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں سردار اختر مینگل نے بلوچستان میں ریاست کی عدم دلچسپی اور مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو بلوچستان کے عوام کی بجائے صرف وہاں کے وسائل سے دلچسپی ہے۔سردار اختر مینگل نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم اور نظرانداز کیے جانے کی پالیسیوں کی وجہ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق ریاست میں عدلیہ، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور میڈیا سمیت تمام ادارے بلوچستان کے ساتھ ناروا سلوک کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سیاسی مداخلت اور ہیرا پھیری کا عمل روز اوّل سے جاری ہے، اور ریاستی ادارے مسلسل بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی یا جذباتیت کو ریاست نے خود پیدا کیا۔ ان کے مطابق ریاستی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہی وہ عوامل ہیں جنہوں نے لوگوں کو مشتعل کیا اور انہیں پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا۔ "لوگ پہاڑوں پر گئے کیوں؟ پہلے تو لوگ پہاڑوں پر نہیں تھے۔” انہوں نے ایوب خان کے دور میں عام معافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پہاڑوں پر موجود لوگوں نے سیاست میں حصہ لیا اور 1970 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے بلوچستان کی پہلی حکومت تشکیل دی۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہمیشہ ان زخموں کو کھرچنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ہمیشہ ریاست کو سمجھاتے رہے کہ ایسا نہ کریں، لیکن بلوچستان کا نوجوان اب ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ جو نوجوان اپنے خاندان کی رضا کے بغیر پہاڑوں پر جاتا ہے، وہ اب کسی بھی سیاسی شخص کی بات نہیں سنے گا۔ "پہاڑوں پر جانے والا نوجوان تو جان ہتھیلی پر رکھ کر وہاں گیا ہے، بات ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔

بلوچستان کے تین بڑے مسائل اور ان کے حل کے سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ سب سے پہلے بلوچستان کو اس ملک کا ایک صوبہ تسلیم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ 75 سالوں سے بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ سردار اختر مینگل نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی ریاست کو بلوچستان کے عوام کی بجائے وہاں کے وسائل، سوئی گیس، ریکوڈک اور ساحلوں سے دلچسپی ہے۔سی پیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے سوال کیا کہ بلوچستان کے ساحل کو بنیاد بنا کر سی پیک لایا گیا، لیکن اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہوا؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی پالیسیاں بلوچستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہیں، اور ان پالیسیوں کے نتیجے میں بلوچستان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔سردار اختر مینگل کا یہ انٹرویو ایک بار پھر بلوچستان کے مسائل کی سنگینی اور ریاستی پالیسیوں کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ریاست کو وہاں کے عوام کے حقوق اور مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ انصاف پر مبنی رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

Leave a reply