برہان مظفر وانی شہیداور مقبوضہ جمو ں وکشمیر
تحریر: محمد اختر اسلم
جہاں پودں سے نکلتے ہیں خون کے آنسو، وہاں انسان رہتے ہیں اِسے کشمیر کہتے ہیں؛کشمیر کی آزادیِ جدوجہدمیں برہان مظفر وانی کا نام وہ سنہری باب ہے جو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔شہیدوں کی سر زمین جنت نظیر وادیِ کشمیر کے اِس بہادر سپوت نے آزادیِ جدوجہدکو ایک نئی سمت دے کر وہ کارنامہ سر انجام دیاجو تاریخ کے ورقوں میں تاقیامت یاد رکھاجائے گا۔ برہان وانی کی شہادت وہ موقع تھا جس نے کشمیری نوجوانوں کو بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے سامنے تحریکِ مزاحمت کو تیز کرنے کا بھرپور جواز دیا۔برہان وانی کی عمر 21 برس تھی، اِن کا تعلق ترال کے شریف آباد گاؤں کی ایک اعلیٰ تعلیم ِ آفتہ گھرانے سے تھا، اِن کے والد مظفر وانی پیشہ کے اعتبار سے اسکول پرنسپل تھے۔برہان وانی نے دورِ جدید کی سماجی رابطہ ویب سائٹ کے زریعے کشمیری نوجوانوں کو یکجاء کیا اور تحریک ِ ّآزادی کو تقویت دی۔کشمیر کی آزادی کے خواہاں دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے برہان وانی ایک رول ماڈل ہے۔ وادی کے ہر بچہ کی طرح برہان وانی بھی بچپن ہی سے بھارتی مظالم کے خلاف تھے۔ کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلے نوجوان تھے جنہوں نے نہ صرف مسلۂ کشمیر کو سماجی رابطہ ویب سائٹ پر اجاگر کیا بلکہ تحریکِ آزادی کو ایک نئیجہت دی۔قابض بھارتی فوج نیبرہان وانی کی نوجوانوں میں بڑھتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تحریک ِ ّآزادی کو دہشتگردی سے منسوب کرنا شروع کر دیا جو سلسلہ بتدریج جاری ہے۔ 8 جولائی 2016 بروز جمعہ کی سہ پہر برہان اور اُن کے دو ساتھی ککرناگ سے متصل ایک گاؤں بمڈور کی مقامی مسجد میں نمازِ عصر کرنے کے بعد جونہی باہر نکلے، قابض افواج نے اِن کو محاصرے میں لے کر شہید کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جو ردِعمل آیا وہ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جو لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت جنوبی ایشیا کو ایک جوہری تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے،دوسری جانب کشمیری عوام آج 2021 میں بھی اپنی آزادی کیلئے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں کشمیرمیڈیا سروس کے مطا بق برہان وانی کی شہادت سے اب تک بھارت 1,414 کشمیریوں کو شہید،26,823معصوم کشمیری گرفتار اوراب تک جعلی مقابلوں کی آڑ میں 4,335گھروں اور دُکانوں کو مسمار کر کے کشمیریوں کا معاشی قتل، 119 سہاگنوں کا سہاگ اجاڑا جا چُکاہے اور 254کشمیری بچوں کے باپ کاسایہ اُن کے سروں سے چھین لیا گیا ہے۔ بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں اب تک 1,051کشمیری خواتین اجتمائی حوِ س کا نشانہ بن چُکی ہیں جبکہ 2000زاہدکشمیریوں کو آنکھوں کی بینائی سے محروم کیا جا چُکا ہے ۔ اِن تمام ظلم و جبر کا مقصدصرف اور صرف کشمیریوں کو اُن کے آزادی کے مطالبہ سے پیچھے ہٹا کر اپنے زیرِ تسلط رہنے پر مجبور کرنا ہے۔بھارت کے مظالم پر خاموشی عالمی انصاف کے علمبرداروں کے منہ پر ایک تمانچہ ہے۔ آج کے دورِ جدید میں بھی جمو ں وکشمیر ظلم و جبر کی ایسی نظر بن چُکا ہے جہاں بھارتی فوج کی 14،15،16 کور تعینات ہے جس کی مجموعی تعداد9لاکھ سے زاہد ہے جس کا مطلب اوسطً ہر 10کشمیریوں پر ایک فوجی تعینات ہے،یہاں یہ بات واضح رہے کہ اِس وقت مقبوضہ وادی دنیا کا سب سے زیادہ عسکری زدہ خطہ ہے اور قابض فوج ظلم وبربریت کی ایسی داستان رقم کر رہی ہے کہ وادی کی مٹی کا کوئی ایسا ٹکڑا نہیں جس میں شہید کا خون شامل نہ ہو،وہاں کوئی ندی نالہ ایسا نہیں بہتا جس میں کشمیری مسلمانوں کا خون نہ بہتا ہو، وادی کا کوئی ایسا گھر نہیں جس میں کوئی مسلمان شہید نہ ہوا ہو اور کوئی ایسا شخص زندہ نہیں جو قابض فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار نہ ہوا ہو۔ہندوتوا سرکار کے تمام تر ظلم و درندگی کے باوجود کشمیری مسلمان آج بھی یک زبان، یک جان ہو کر سبز ہلالی پرچم ہاتھو ں میں تھامے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، کشمیری جانتے ہیں کہ آزادیِ جدوجہد میں اُ ن کی قربانیاں اور جزبے بھارتی فوج کی بندوقوں سے زیادہ طاقت ور ہیں اور جیت ہمارا مقدر ہے کیونکہ حق اور باطل کی جنگ میں جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ اِس وقت مقبوضہ وادی کے حالات انتہائی حساس ہیں،ایسے میں اقوامِ عالم پر زامہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوراًبھارت کی اِن خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اورکشمیریوں کے ساتھ کئے گئے حقِ خود ارادیت کے وعدے کو وفاکرے ایسے میں اگر اقوا مِ متحدہ نے کوئی پیشرفت نہ کی تو جنوبی ایشیا ایکجوہری جنگکا سامنہ کر سکتا ہے جس کہ دوردرس نتائج نا صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا پر مرتکب ہونگے۔